وہ جگہ جہاں 2 سمندر آپس میں ملتے ہیں مگر پانی مکس نہیں ہوتا ۔ قرآن مجید نے اس کا ذکر 14 سو سال پہلے کر دیا تھا۔
سورہ رحمن
آیات نمبر 19 تا 23
آیات:
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ(۱۹)بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِۚ(۲۰)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(۲۱)یَخْرُ جُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُۚ(۲۲)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(۲۳)
ترجمہ:
اس نے دو سمندر بہائے کہ دیکھنے میں معلوم ہوں ملے ہوئے اور ہے ان میں روک کہ ایک دوسرے پر بڑھ نہیں سکتا تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے ان میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے
تفسیر:
{مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ: اس نے دو سمندر بہائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھاری دو ایسے سمندر بہائے کہ دیکھنے میں ان کی سطح آپس میں ملی ہوئی لگتی ہے کیونکہ ان کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے ظاہری طور پر کوئی چیز حائل نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھ نہیں سکتے بلکہ ہر ایک اپنی حد پر رہتا ہے اور دونوں میں سے کسی کا ذائقہ بھی تبدیل نہیں ہوتا حالانکہ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسرے پانی میں فوراً مل جاتا ہے اور ا س کا ذائقہ بھی تبدیل کر دیتا ہے۔
میٹھے اور کھاری سمندروں کا ذکر:
ان سمندروں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا‘‘(فرقان:۵۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا (ان میں ) یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (ایک) کھاری نہایت تلخ ہے اور ان کے بیچ میں اس نے ایک پردہ اور روکی ہوئی آڑ بنادی۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ﳓ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآىٕغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌؕ-وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَاۚ-وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ‘‘(فاطر:۱۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور دونوں سمندر برابر نہیں (ان میں سے ایک) یہ میٹھا خوب میٹھا ہے اس کا پانی خوشگوارہے اور یہ (دوسرا) نمکین بہت کڑوا ہے اور (ان دونوں سمندروں میں سے) ہر ایک سے تم (مچھلی کا) تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ زیور (قیمتی موتی) نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو چیرتے ہوئے دیکھے گا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن و انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھاری دو سمندر بہا کر اور ان میں تمہارے پہننے کا زیور رکھ کر تم پر جوا نعام کیا ،تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱/۵۸۸)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ!اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان سمندروں میں مَنافع پیدا فرما کر تم پر جو انعام کیا تم ان نعمتوں میں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۱/۵۹۰)
ماشاءاللہ
ReplyDelete