"جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور تمام بنی اسرائیل مسلمان ہو گئے اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان نصیب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ آپ بنی اسرائیل کا لشکر لے کر ارض مقدس (بیت المقدس)میں داخل ہو جائیں۔ اُس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی قوم کا قبضہ تھا جو بدترین کفار تھے اور بہت طاقتور و جنگجو اور نہایت ہی ظالم لوگ تھے چنانچہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر قوم عمالقہ سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے مگر جب بنی اسرائیل بیت المقدس کے قریب پہنچے تو ایک دم بزدل ہو گئے اور کہنے لگے کہ اس شہر میں ''جبارین''(عمالقہ) ہیں جو بہت ہی زور آور اور زبردست ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ لوگ شہر میں رہیں گے ہم ہرگز ہرگز شہر میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہاں تک کہہ دیا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کا خدا جا کر اس زبردست قوم سے جنگ کریں۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بنی اسرائیل کی زبان سے یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بڑا رنج و صدمہ ہوا اور آپ نے باری تعالیٰ کے دربار میں یہ عرض کیا کہ:۔"
حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر قوم عمالقہ سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے مگر جب بنی اسرائیل بیت المقدس کے قریب پہنچے تو ایک دم بزدل ہو گئے اور کہنے لگے کہ اس شہر میں ''جبارین''(عمالقہ) ہیں جو بہت ہی زور آور اور زبردست ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ لوگ شہر میں رہیں گے ہم ہرگز ہرگز شہر میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہاں تک کہہ دیا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کا خدا جا کر اس زبردست قوم سے جنگ کریں۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بنی اسرائیل کی زبان سے یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بڑا رنج و صدمہ ہوا اور آپ نے باری تعالیٰ کے دربار میں یہ عرض کیا کہ:۔"
رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیۡ وَاَخِیۡ فَافْرُقْ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿25﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اے رب میرے مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو اُن بے حکموں سے جدا رکھ۔ (پ6،المائدۃ:25)اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب و جلال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمْ اَرْبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرْضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿٪26﴾
"ترجمہ کنزالایمان:۔تو وہ زمین اُن پر حرام ہے چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم اُن بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔ (پ6،المائدۃ:26)
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ چھ لاکھ بنی اسرائیل ایک میدان میں چالیس برس تک بھٹکتے رہے مگر اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ اسی میدان کا نام ''میدان تیہ''ہے۔ اس میدان میں بنی اسرائیل کے کھانے کے لئے ''من و سلویٰ'' نازل ہوا۔ اور پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے بار بار مختلف عنوانوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ جس میں سے سورہ مائدہ میں یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے جو بلاشبہ ایک عجیب الشان واقعہ ہے جو بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور شرارتوں کی تعجب خیز اور حیرت انگیز داستان ہے مگر اس کے باوجود بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت و شفقت بنی اسرائیل پر ہمیشہ رہی کہ جب یہ لوگ میدان تیہ میں بھوکے پیاسے ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگ کر اُن لوگوں کے کھانے کے لئے من و سلویٰ نازل کرایا۔ اور پتھر پر عصا مار کر بارہ چشمے جاری کرا دیئے اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر اور آپ کے حلم اور تحمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔"
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ چھ لاکھ بنی اسرائیل ایک میدان میں چالیس برس تک بھٹکتے رہے مگر اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔ اسی میدان کا نام ''میدان تیہ''ہے۔ اس میدان میں بنی اسرائیل کے کھانے کے لئے ''من و سلویٰ'' نازل ہوا۔ اور پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تو پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے بار بار مختلف عنوانوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ جس میں سے سورہ مائدہ میں یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے جو بلاشبہ ایک عجیب الشان واقعہ ہے جو بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور شرارتوں کی تعجب خیز اور حیرت انگیز داستان ہے مگر اس کے باوجود بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت و شفقت بنی اسرائیل پر ہمیشہ رہی کہ جب یہ لوگ میدان تیہ میں بھوکے پیاسے ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگ کر اُن لوگوں کے کھانے کے لئے من و سلویٰ نازل کرایا۔ اور پتھر پر عصا مار کر بارہ چشمے جاری کرا دیئے اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر اور آپ کے حلم اور تحمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔"
اگلا واقعہ پڑھنے کے لیئے نیچے اس ( ← ) نشان پر کلک کیجیئے
پچھلا واقعہ پڑھنے کے لیئے نیچے اس( → ) نشان پر کلک کیجیئے