ایک مرتبہ شیر ، بھیڑیا اور لومڑی مل کر شکار کو نکلے، شیر کو ان کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہوئے شرم اتی تھی تاہم انداہ لطف و کرم اس نے ان کو اپنے ہمراہ لے لیا۔
شکار میں ان کے ساتھ گائے بکرا اور خرگوش آئے۔ وہ شکار کو گھسیٹ کر پہاڑ سے میدان میں لائے۔ بھیڑیے اور لومڑی کے دل میں طمع پیدا ہوئی کہ انہیں بھی شکار میں پورا حصہ ملنا چاہیئے۔
شیر بھی ان کی نیت تاڑ گیا لیکن خاموش رہا اور دل میں کہا کہ '' ارے پاگلو تم نے عطائے شاہی بھروسہ کیا دیکھو میں تمہیں اس لالچ کی کیسی سزا دیتا ہوں۔ پہلے اس نے بھیڑئیے سے مخاطب ہو کر کہا : بھیڑیے تو اس شکار کو انصاف سے تقسیم کر۔
بھیڑیئے نے کہا اے بادشاہ گاۓ آپ کا حصہ ہے کیونکہ آپ بڑے ہیں بکرا میرا حصہ ہے کیونکہ یہ درمیانے درجے کا ہے اور خرگوش لومڑی کے لائق ہے۔
شیر نے یہ سن کر کہا اے بیوقوف میرے سامنے تیری کیا مجال ہے کہ تو تیرا اور میرا کہہ کر حصے تقسیم کرے۔ یہ کہہ کر شیر نے بھیڑئیے کے منہ پر زوردار پنجہ مارا جس کی وجہ سے بھیڑیا ہلاک ہو گیا پھر اس نے لومڑی کو حکم دیا کہ شکار تقسیم کرے۔
لومڑی پہلے تو پریشان ہوگئی پھر نہایت ادب سے عرض کی عالیجاہ موٹی گائے آپکے صبح کے ناشتے کے لیے ہے بکرا دوپہر کی یخنی کے لیے اور خرگوش صاحب شام کو تناول فرمائیں گے۔ شیر بہت خوش ہوا اس نے پوچھا: اے معزز لومڑی تو نے اتنی منصفانہ تقسیم کس سے سیکھی؟
اس نے کہا جہاں پناہ اس بھیڑئیے سے۔ شیر نے کہا جب تو نے ہمارے لئے اپنی ذات مٹا دی تو یہ تینوں شکار تو ہی لے جا۔ لومڑی خوشی خوشی تینوں شکار لے گئی۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے عقل مند وہ ہے جو دوسرے کے انجام سے عبرت پکڑے۔
Tags:
سبق آموز