اللہ تک پہنچنے کا طریقہ
بادشاہ بغداد برسوں سے یہ تمنّا رکھتا تھا کہ حضرت بہلول دانا رحمتہ اللّہ علیہ سے ملاقات کرے...
مگر اس مست الست کے استغناء و بے نیازی کی ٹھوکر سے ہمیشہ بادشاہ کی عظمتِ شہنشاہی پامال ہوتی رہی اور کبھی بھی آپ رحمتہ اللّہ علیہ نے دربارِ شاہی میں قدم رکھنا گوارا نہیں فرمایا۔
.
آخر ایک دن ایسا اتفاق درپیش ہو گیا کہ آپ رحمتہ اللّہ علیہ شاہی محل والے راستے سے گُزر رہے تھے،بادشاہ نے محل کی چھت سے آپ رحمتہ اللّہ علیہ کو دیکھ لیا۔
فوراً ہی کمند ڈال کر آپ رحمتہ اللّہ علیہ کو ایک دم محل کی چھت پر کھینچ لیا۔
.
بادشاہ نے آپ رحمتہ اللّہ علیہ سے دریافت کِیا...
بہلول بابا...!
یہ بتائیے کہ آپ خدا تک کس طرح پہنچے..؟
.
آپ رحمتہ اللّہ علیہ نے جواب دیا...
جس طرح آپ کے پہنچ گیا۔
.
بادشاہ نے پوچھا...
میرے پاس آپ کس طرح پہنچے..؟
.
آپ رحمتہ اللّہ علیہ نے جواب دیا...
جس طرح میں خدا تک پہنچا۔
.
بادشاہ نے اس جواب سے حیران ہو کر عرض کِیا حضور میں کچھ نہیں سمجھ سکا۔
آپ رحمتہ اللّہ علیہ نے فرمایا...
اے بادشاہ...!
میرا مطلب یہ ہے کہ اگر میں خود آپ کے پاس پہنچنا چاہتا تھا تو میں نہا دھو کر لباسِ فاخرہ پہن کر دربان کی عنایتوں کا مرہونِ مِنّت بنتا،محل تک پہنچتا،عرضی پیش کرتا،پِھر گھنٹوں بلکہ پہروں تک اِنتظار کرتا پِھر بھی کچھ ضروری نہیں کہ میں آپ کے پاس پہنچ ہی جاتا۔
ممکن ہے کہ آپ میری درخواست ٹُھکرا دیتے لیکن جب آپ نے مجھے بُلانا چاہا تو ایک منٹ میں کمند ڈال کر مجھے اپنے دربار میں بُلا لیا۔
.
بس یہی حال خدا تک پہنچنے کا ہے کہ بندّہ برسوں عبادت و ریاضت میں رہ کر سجدے میں سَر رگڑ رگڑ کر وِصالِ خداوندی کا طلبگار ہوتا ہے۔ہزاروں مجاہدات کر ڈالتا ہے مگر خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔
.
لیکن خداوند کریم جب خود کسی بندّے کو اپنے قُرب و وِصال کی دولت سے نوازنا چاہتا ہے تو بس آن واحد میں اس کے دل کے اندر ایک جذبہ پیدا فرما کر بندّے کو خود اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور بندّہ خدا تک پہنچ جاتا ہے۔
.
روحانی حِکایات حِصّہ دوم
صفحہ201
حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمتہ اللّہ علیہ...