ملا نصر الدین اور مالدار یہودی٬ سبق آموز قصہ
آپ نے ملا نصر الدین کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ شخص ترکی کا ایک مسخرہ تھا جس طرح ہمارے ہاں ملا دو پیازہ اور شیخ چلی کے لطیفے مشہور ہیں، اسی طرح ترکی میں ملا نصر الدین کے لطیفے بڑے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے ہیں۔کہتے ہیں ملا نصر الدین یوں تو نہایت عقل مند اور عالم فاضل شخص تھا مگر لوگوں کی اصلاح اور تفریح کے لیے بے وقوف بنا رہتا اور ایسی ایسی حرکتیں کرتا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
ملا نصر الدین کے پڑوس میں ایک مال دار یہودی رہتا تھا جو اتنا کنجوس تھا کہ کبھی کسی غریب اور محتاج کو ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔ ملا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے ، اسے غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، لیکن اس نے ملا کی کوئی نصیحت نہ سنی۔ آخر ملا نصر الدین نے اسے سزا دینے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا۔ یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔لیکن اگر اس میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو ہرگز قبول نہ کروں گا۔ یہودی نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملا بڑا ایمان دار بنتا ہے ،
اس کی ایمانداری آزمانی چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھریں اور عین اس وقت جب کہ ملا نصر الدین دعا مانگ رہا تھا، اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔ ملا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال نکال کر گننے لگا۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں، ملا نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا۔یا اللہ، میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے میری دعا قبول فرما لی، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہی، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔ یہودی نے جب ملا نصر الدین کے یہ الفاظ سنے تو سخت پریشان ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ یہ ملا تو بہت چالاک ہے۔ اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھا لیں وہ بھاگا بھاگا ملا کے پاس آیا
اور کہنے لگا تم بہت بے ایمان شخص ہو۔ لاو، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم نو سو ننانوے اشرفیاں قبول کرنے پر تیار ہو۔ملا نصر الدین غصے سے کہنے لگا، تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے ، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، جاو، اپنا کام کرو۔ یہودی سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملا کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔قاضی صاحب نے یہودی کو حکم دیا کہ ملا نصر الدین کو بلا لاو، ہم ابھی فیصلہ کر دیں گے۔ یہودی نے ملا نصر الدین کے پاس آ کر کہا، چلو، تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ ملا نے جواب دیا، تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے ، میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو، یہودی نے یہ شرط بھی منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے ملا کو لا کر دے دیے۔ملا نصر الدین یہ بیش قیمت لباس پہن چکا تو کہنے لگا،
میاں یہودی، کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاوں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے ، جاو اپنا گھوڑا لے آو، اس پر سوار ہو کر جاوں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا، یہودی نے اپنا گھوڑا بھی ملا کے حوالے کر دیا اور ملا صاحب نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے ، مقدمہ پیش ہوا، قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ملا نصر الدین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی انہوں نے دیکھا اور یہودی کا لباس بھی اور یہ بھی محسوس کیا کہ وہ پیدل آیا ہے ، یہودی نے جب سارا قصہ سنایا تو قاضی صاحب نے ملا نصر الدین سے پوچھا۔ملا صاحب، تم اس کے الزام کا کیا جواب دیتے ہو، ملا نے جواب دیا، حضور، یہ یہودی میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوا شخص ہے ، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں وہ بھی اسے کا ہے۔ یہ سنتے ہی یہودی چلا اٹھا،
ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے ، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔ ملا نے کہا سن لیا آپ نے ، یہ لباس بھی اس کا ہو گیا اور ابھی دیکھیے یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔ یہودی غصے سے چیخ اٹھا، ہاں حضور، یہ گھوڑا بھی میرا ہی ہے ، ملا نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔ قاضی نے جو یہ باتیں سنیں تو یہودی کو ڈانٹ پھٹکار کر نکال دیا اور مقدمہ خارج کر دیا۔ یہودی روتا پیٹتا ملا نصر الدین کے گھر پہنچا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ ملا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔