میرے باس کو اپنے واسطے ایک مکان خریدنا تھا لیکن مکان تلاش کرنے پر مجھے معمُور کیا گیا تھا، ایک دن اخبار میں ایک اشتہار نظر سے گزرا مجھے ایڈریس جانا پہچانا لگا دماغ پر زور دیا تو یاد آیا کہ اس مکان کو میں دو ہفتے پہلے دیکھ کر آچُکا تھا وہاں صرف ایک بوڑھا اور بوڑھی رہتے تھے مجھ سے بہت تپاک سے ملے تھے خوب آؤ بھگت کی تھی، میں نے سوچا گھر اچھا ہے پیسے کچھ زیادہ ہیں لیکن میں باس کو تیار کر لونگا اور جس مقصد کے لیئے وہ گھر بیچ رہے ہیں وہ بھی پورا ہوجائے گا، میں اپنے گھر سے مطلوبہ گھر پہنچا دروازہ اُسی بوڑھے نے کھولا مجھے دیکھ کر گلے لگایا اور اندر لے چلا، بوڑھی چائے لے آئی اور گفتگو کا آغاز ہوا لیکن میں جب بھی سودے کی بات کرتا وہ دونوں بات گول کر جاتے اور بات کو بدل دیتے، کیا کرتے ہو ؟ شادی کیوں نہیں کی؟ کھانے میں کیا پسند ہے؟ آباؤ اجداد کہاں سے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
مجھے کوفت ہونے لگی اور میں نے چُھلّا کر کہا! بزرگوں سب چھوڑیں اصل مُدّے پر آئیں ۔۔۔ میرے تُرش رویئے سے دونوں کے چہرے مُرجھا گئے، پھر بوڑھے نے کہنا شروع کیا! بیٹا ہم یہ مکان نہیں بیچ سکتےکیونکہ یہ مکان ہم نے اپنے بچوں کے نام کر دیا ہے۔۔۔۔
ہمارے تین بیٹے ہیں ماشاءاللہ سب شادی شدہ ہیں بال بچوں والے ہیں لیکن تینوں ملک سے باہر ہیں جب سے گئے ہیں پلٹ کر نہیں آئے، مجھے پینشن ملتی ہے ہمارا گزارہ ہو جاتا ہے بس ہم سے بات کرنے والا کوئی نہیں اس لیئے ہم ہر ہفتے اخبار میں اشتہار لگا دیتے ہیں اس بہانے لوگ آتے ہیں اور ہم دونوں کو کچھ دیر کے لیئے کوئی بات کرنے والا مل جاتا ہے ۔۔۔۔ میں نے یہ سُنا تو مجھ سے اُٹھنا دوبھر ہو گیا ۔۔۔ میرے قدم بھاری اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے
Tags:
میری ڈائری کا ایک ورق