مفتی محمد وقاص رفیع |
ضروری تمہید:
تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ ٗ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن امام حسین کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں مار کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے حیائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے دردناک والم ناک واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ اور ان کے ۷۰، ۷۲ متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری جیسے ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔
تاریخی پس منظر:
حضرت معاویہ کی وفات کے بعد تخت خلافت جب خالی ہوا تو یزیدنے فوراً اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔ کیوں کہ وہ پہلے سے ہی ولی عہد مقرر ہوچکا تھا ۔لہٰذا اس نے امام حسین سے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا ۔لیکن امام حسین نے کسی کی پرواہ کیے بغیر اس بات کا سرعام اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں ہے ۔ اس لئے اسے خلیفۃ المسلمین نہیں بنایا جاسکتا ۔ یزید کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسین نے میری بیعت سے انکار کردیا ہے تو اس نے والئ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ وہ انہیں میری بیعت پر مجبور کرے اور ان کو اس معاملہ میں مزید کسی قسم کی مہلت نہ دے ۔ ولید کے پاس جب یہ خط پہنچا تو وہ فکر میں پڑگیا کہ اس حکم کی تعمیل وہ کس طرح کرے ؟ چنانچہ اس نے سابق والئ مدینہ مروان بن حکم کو مشورہ کے لئے بلایا ، اس نے کہا کہ اگر امام حسین یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو فبہا ورنہ ان کو یہیں پرقتل کردیا جائے ۔نیز مروان نے امام حسین کے سامنے ولید سے کہا کہ ابھی امام حسین تمہارے ہاتھ میں ہیں اس لئے ان سے درگزر نہ کرو اگر یہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر دوبارہ کبھی تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گے ۔ لیکن ولید ایک عافیت پسند شخص تھا اس نے مروان کی بات کی پرواہ کیے بغیر امام حسین کے لئے راستہ کھول دیا اور وہ واپس چل پڑے۔ مروان نے ولید کو ملامت کی کہ تو نے موقع ضائع کردیا ۔ مگرولید نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں امام حسین کو قتل کرنے سے ڈرتا ہوں ، کہیں ایسا نہ ہوکہ قیامت کے دن وہ اپنے خون کا مطالبہ مجھ سے کردیں ، اس لئے کہ امام حسین کے خون کا مطالبہ جس کی گردن پر ہوگا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پاسکے گا۔
مکہ کی طرف ہجرت:
امام حسین اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیئے اور وہیں جاکر پناہ گزین ہوگئے ۔ یزید کو جب ولید کے عفو و درگزر کا علم ہوا تو اس نے انہیں مدینہ سے معزول کردیا۔
اہل کوفہ کے خطوط:
اہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ آپ صنے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ہے تو کچھ حضرات شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور امام حسین کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپ فوراً کوفہ تشریف لے آیئے ، ہم سب آپ کے ہاتھ ہر بیعت کرلیں اور یزید کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیرص کو یہاں سے نکال دیں گے ۔
اس کے دو دن بعد ان لوگوں نے اسی مضمون کا ایک خط امام حسین کی طرف لکھا اور چند دوسرے خطوط بھی آپ کے پاس بھیجے ،جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں چند وفود بھی آپ کی خدمت میں بھیجے ۔ جن سے متاثر ہوکر امام حسین نے بڑی حکمت و دانش مندی سے یہ کام کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ کر اہل کوفہ کی طرف بھیجاکہ : ’’میں اپنی جگہ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں تاکہ یہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے ان کی اطلاع دیں۔ اگر حالات درست ہوئے تو میں فوراً کوفہ پہنچ جاؤں گا۔
کوفہ آنے کی دعوت:
مسلم بن عقیل صنے جب چند دن کوفہ میں گزارے تو انہیں اندازہ ہواکہ یہ لوگ واقعتاًیزید کی بیعت سے متنفر اور امام حسین کی بیعت کے لئے بے چین ہیں ، چنانچہ انہوں نے چند دنوں میں ہی اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی امام حسین کے لئے بیعت کرلی اور حسب ہدایت حضرت حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔(الکامل فی التاریخ )
دوستوں کا مشورہ:
جب لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی امام حسین نے کوفہ جانے کا عزم کرلیا ہے تو بجز عبد اللہ بن زبیرص کے اور کسی نے آپ کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا ، بلکہ بہت سے حضرات ٗحضرت حسینص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیں اور اہل عراق و اہل کوفہ کے وعدوں اور ان کی بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں ، وہاں جانے میں آپ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
کوفہ کے لئے روانگی:
لیکن امام حسین نے کسی کی ایک نہ سنی اور ۸ یا ۹ ذی الحجہ ۶۰ ھ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔ کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسین کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلہ کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب امام حسین نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔
امام حسین اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھوڑ سوار ہیں ۔ اس لئے امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذِ جنگ بنالیا ۔
حر بن یزید کا ایک ہزار کا لشکر:
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لئے آکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا ، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسین کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسین نے حر بن یزید سے فرمایا: ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر بن یزیدنے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین نے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘
حر بن یزید کا اعتراف حق:
اس کے بعد حر بن یزید نے کہا : ’’مجھے آپ سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، بلکہ حکم یہ ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک کہ آپ کو ابن زیاد کے پاس کوفہ نہ پہنچادوں ۔ اس لئے آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ جائے اور نہ مدینہ ، یہاں تک کہ میں ابن زیاد کو خط لکھوں اور آپ بھی یزید یا ابن زیاد کو خط لکھیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی مخلص پیدا فرمادیں اور میں آپ کے ساتھ مقاتلہ کرنے اور آپ کو ایذا پہنچانے سے کسی طرح بچ جاؤں۔ امام حسین نے عذیب اور قادسیہ کے راستہ سے بائیں جانب چلنا شروع کردیا اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر سمیت ان کے ساتھ چلتا رہا ۔(تاریخ الامم و الملوک : ج ۶ ص ۲۲۰)
امام حسین کا خواب:
امام حسین جب’’ نصر بنی مقاتل‘‘ پہنچ گئے تو آپ پر ذرا سی غنودگی طاری ہوگئی ، لیکن اس کی تھوڑی ہی دیر بعدآپ ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہتے ہوئے بیدار ہوگئے ۔ آپ کے صاحب زادے علی اکبر نے جب یہ سنا تو دوڑتے ہوئے آئے اور پوچھنے لگے : ’’ ابا جان! کیا بات ہے؟‘‘ امام حسین نے فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی گھڑ سوار میرے پاس آیاہے اور وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ : ’’ کچھ لوگ چل رہے ہیں اور ان کی موتیں بھی ان کے ساتھ چل رہی ہیں ۔‘‘ اس سے میں سمجھا کہ یہ ہماری موت ہی کی خبر ہے۔‘‘
علی اکبر کی ثابت قدمی:
صاحب زادے نے عرض کیا : ’’اباجان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟‘‘آپ نے فرمایا : ’’بلا شبہ ہم حق پر ہیں ۔‘‘ صاحب زادے نے عرض کیا : ’’پھر ہمیں کیا ڈر ہے ، جب کہ ہم حق پر مر رہے ہیں؟ ‘‘ امام حسین نے ان کو شاباش دی اور فرمایا کہ : ’’واقعی تم نے اپنے باپ کا صحیح حق ادا کیا۔‘‘(ابن جریر : ج ۶ ص ۲۳۲)
حربن یزید پر جاسوسوں کا تسلط:
اس کے بعد امام حسین آگے کی طرف چل دیئے اور جب مقام’’ نینویٰ ‘‘پر پہنچے تو ایک گھڑ سوار کوفہ سے آتا ہوا نظرآیا ، یہ سب اس کے انتظار میں اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر گئے ۔ اس نے آکر امام حسین کو تو نہیں البتہ حر بن یزید کو سلام کیا اور ابن زیاد کا خط اس کو دیا ۔حر بن یزید نے ابن زیاد کا خط پڑھ کر اس کا مضمون امام حسین کو سنا دیا اور ساتھ ہی اپنی مجبوری بھی ظاہر کردی کہ: ’’ اس وقت میرے سر پر جاسوس مسلط ہیں ، اس لئے فی الحال میں آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت نہیں کرسکتا۔‘‘
عمرو بن سعد کا چار ہزار کا لشکر:
اس کے بعد ابن زیاد نے کوفہ سے عمرو بن سعد کو مجبور کرکے چار ہزار کا لشکر دے کر امام حسین کے مقابلہ کے لئے بھیج دیا۔ عمرو بن سعد نے یہاں پہنچ کر امام حسین سے کوفہ آنے کی وجہ پوچھی ، تو آپ نے پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ:’’ اہل کوفہ نے خود مجھے یہاں آنے کی دعوت دی ہے ۔ اگر اب بھی ان کی رائے بدل گئی ہو تو میں واپس مدینہ جانے کے لئے تیار ہوں ۔‘‘ عمر بن سعد نے اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر ابن زیاد کی طرف لکھاکہ امام حسین واپس جانے کے لئے تیار ہیں ۔
پانی کی بندش:
ابن زیاد نے جواب میں لکھا کہ امام حسین کے سامنے صرف یہ ایک شرط رکھوکہ: ’’ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ ‘‘ جب وہ ایسا کرلیں گے تو پھر ہم غور کریں گے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ اور ساتھ ہی عمر بن سعد کو یہ حکم دیا کہ وہ امام حسین اور ان کے ساتھیوں کا پانی بند کردیں ۔‘‘ یہ واقعہ امام حسین کی شہادت سے تین دن پہلے کا ہے ۔
پانی پر تصادم:
چنانچہ عمر بن سعد نے ان کا پانی بالکل بند کردیا، یہاں تک کہ جب یہ سب حضرات پیاس کی شدت سے پریشان ہوئے تو امام حسین نے اپنے بھائی عباس بن علی کو تیس گھڑ سواروں اور تیس پیادہ پاؤں کے ساتھ پانی لانے کے لئے بھیج دیا ۔ جب یہ لوگ پانی لینے کے لئے جارہے تھے تو راستے میں ان کا عمر بن سعد کی فوج سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن اس کے باوجود پانی کی تقریباً بیس مشکیں یہ حضرات بھر کر لے آئے ۔
عمرو بن سعد سے مکالمہ:
اس کے بعد امام حسین نے عمر بن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ آج رات کو ہماری ملاقات ایک دوسرے کے لشکروں کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ ہم سب بالمشافہ ایک دوسرے کے سامنے گفتگو کرسکیں۔‘‘ عمر بن سعد نے آپ کا یہ پیغام قبول کیا اور رات کو دونوں لشکروں کی باہم ملاقات ہوئی۔
تین شرطیں:
ملاقات میں امام حسین نے اپنے متعلقہ عمر بن سعد کے سامنے تین شرطیں رکھیں : ’’ایک یہ کہ میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔ دوسری یہ کہ میں یزید کے پاس چلا جاؤں اور خود اس سے اپنا معاملہ طے کرلوں ۔ تیسری یہ کہ مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچادو ، وہ لوگ جس حال میں ہوں گے میں بھی اسی حال میں رہ لوں گا۔‘‘ عمر بن سعد نے امام حسین کی یہ تینوں باتیں سن کر ابن زیاد کی طرف دوبارہ ایک خط لکھا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھادی اور مسلمانوں کا کلمہ متفق کردیا ۔ مجھ سے امام حسین نے ان (مذکورہ) تین باتوں کا اختیار مانگا ہے جن سے آپ کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور امت کی اسی میں صلاح و فلاح ہے۔‘‘ ابن زیاد نے جب خط پڑھا تو وہ کافی متاثر ہوا اور کہا کہ یہ خط ایک ایسے شخص کا ہے جو امیر کی اطاعت بھی چاہتا ہے اور اپنی قوم کی عافیت کا بھی خواہش مند ہے ۔(عمرو بن سعد) ہم نے اس خط کو قبول کرلیا ہے ۔
شمر ذی الجوشن کی مخالفت:
لیکن شمر ذی الجوشن جو ابن زیاد کے پاس ہی ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ،کہنے لگا کہ: ’’ کیا آپ امام حسین کو مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوت حاصل کرکے دوبارہ تمہارے مقابلے کے لئے نکل کھڑے ہو ں؟ یاد رکھیں! اگر آج وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی تم ان پر قابو نہ پاسکو گے ۔ مجھے اس خط میں عمر بن سعد کی سازش معلوم ہوتی ہے ۔ کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ وہ راتوں کو آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘
ابن زیاد کا جواب:
ابن زیاد نے شمر کی رائے کو قبول کرتے ہوئے عمر وبن سعد کی طرف اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور اسے شمر کے ہاتھ روانہ کیا اوراسے ہدایت کی کہ اگر عمرو بن سعد میرے اس حکم کی فوراً تعمیل نہ کرے تو تو اسے قتل کردینا اور اس کی جگہ لشکر کا امیر تو خود بن جانا۔
عمرو نے دور سے ہی شمر کو پڑھ لیا:
شمر جب ابن زیاد کا خط لے عمرو بن سعد کے پاس پہنچا تو وہ سمجھ گئے کہ شمر کے مشورہ سے یہ صورت عمل وجود میں آئی ہے اور میرا مشورہ ردّ کردیا گیا ہے ۔ اس لئے عمرو بن سعد نے شمر سے کہا کہ: ’’تونے بڑا ظلم کیا ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متفق ہورہا تھا اور تونے اس کو ختم کرکے قتل و قتال کا بازار گرم کردیا ہے ۔‘‘ بالآخر امام حسین کو یہ پیام پہنچایا گیا ، توآپ نے اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ : ’’ اس ذلت سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘
خواب میں آنحضرت ؐ کی زیارت:
شمر ذی الجوشن محرم کی نویں تاریخ کو اس محاذ پر پہنچا تھا ۔ امام حسین اس وقت اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ پر کچھ غنودگی سی طاری ہوگئی اور آنکھ لگ گئی ، لیکن پھر اچانک ہی ایک آواز کے ساتھ آپ بیدار ہوگئے ۔ آپ کی ہمشیرہ زینب نے جب یہ آواز سنی تو دوڑتی ہوئی آئیں اورپوچھا کہ یہ آواز کیسی تھی؟ ۔ آپ نے فرمایا کہ : ’’ابھی ابھی خواب میں مجھے رسول اللہ ؐ کی زیارت ہوئی ، آپ فرمارہے تھے کہ: ’’ اب تم ہمارے پاس آنے والے ہو۔‘‘ حضرت زینب یہ سن کر روپڑیں ،لیکن امام حسین صنے انہیں چپ کرایا اور تسلی دی ۔اتنے میں شمر کا لشکر سامنے آگیا ، آپ کے بھائی حضرت عباس آگے بڑھے اور اپنے مدمقابل حریف سے گفتگو شروع کی ، لیکن اس نے بلا مہلت قتال کا اعلان کردیا ۔ حضرت عباس نے جب جنگ کا اعلان سنا تہ انہوں نے جاکر امام حسین کو اس کی اطلاع دے دی۔ امام حسین نے فرمایا : ’’کہ ان سے کہوکہ آج کی رات قتال ملتوی کردیں تاکہ آج کی رات میں وصیت اور نماز و دعاء اور استغفار میں گزار لوں ۔‘‘ حضرت عباس نے امام حسین کا پیغام جاکر شمر تک پہنچادیا۔ شمر ذی الجوشن ور عمر وبن سعد نے لوگوں سے مشورہ کیا اور آپ کو اس رات عبادت کرنے کی مہلت دے دی اور واپس چل دیئے۔
عاشورہ کی رات اہل بیت کے سامنے تقریر:
امام حسین نے رات کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا جس کا لب لباب یہ تھا: ’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ٗ راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی ۔ اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے ہمیں شرافت نبوت اسے نوازا ، ہمیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے ، جن سے ہم آپ کی آیات سمجھیں اور ہمیں آپ نے قرآن پاک سکھلایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی ، ہمیں آپ اپنے شکر گزار بندوں میں داخل فرمالیجئے۔‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ میرے علم میں آج تک کسی شخص کے ساتھی ایسے وفا شعار اور نیکو کار نہیں ہیں جیسے میرے ساتھی ہیں اور نہ ہی کسی کے اہل بیت میرے اہل بیت سے زیادہ ثابت قدم نظر آتے ہیں ۔ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ میری طرف سے بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کل ہمارا آخری دن ہے ، میں آپ سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ سب اس رات کی تاریکی میں متفرق ہوجاؤ اور جہاں پناہ ملے وہاں چلے جاؤ ، اور میرے اہل بیت میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑلو ، اور مختلف علاقوں میں پھیل جاؤ ، کیوں کہ دشمن میرا طلب گار ہے ، وہ مجھے پائے گا تو دوسروں کی طرف التفات نہ کرے گا۔‘‘
یہ تقریر سن کر آپ کے بھائی ، آپ کی اولاد ، آپ کے بھتیجے اور حضرت عبد اللہ بن جعفر کے صاحب زادے یک زبان ہوکر بولے : ’’ واللہ! ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے ، ہمیں اللہ تعالیٰ آپ کے بعد باقی نہ رکھے۔‘‘
عاشورہ کی رات بنو عقیل کے سامنے تقریر:
اس کے بعد امام حسین نے بنو عقیل کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’تمہارے ایک بزرگ مسلم بن عقیل شہید ہوچکے ہیں ٗتمہاری طرف سے وہی ایک کافی ہیں ٗ تم سب واپس چلے جاؤ ، میں تمہیں خوشی سے اجازت دیتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ : ’’ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ اپنے بزرگوں اور بڑوں کو موت کے سامنے چھوڑ کر اپنی جان بچا لائے ، بلکہ اللہ کی قسم! ہم تو آپ پر اپنی جانیں اور اولاد و اموال سب کچھ نچھاور کردیں گے۔‘‘
اپنی ہمشیرہ زینب کو وصیت:
آپ کے ہمشیرہ حضرت زینب بے قرار ہوکر رونے لگیں تو آپ نے انہیں تسلی دی اور یہ وصیت فرمائی : ’’میری بہن! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت پر نہ تم اپنے کپڑے پھاڑنا اور نہ ہی سینہ کوبی کرنا ، نیز چیخ اور چلا کر رونے سے بھی گریز کرنا ۔‘‘ ہمشیرہ کو یہ وصیت فرماکر امام حسینص باہر آگئے اور اپنے اصحاب کو جمع کرکے تمام شب تہجد اور دعاء و استغفار میں مشغول رہے ۔ یہ عاشورہ کی رات تھی اور صبح کوعاشورہ (۱۰ محرم) کا دن تھا ۔( تاریخ یعقوبی و ابن جریر : ج ۶ ص ۲۴۰)
یوم عاشورہ کی صبح:
دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسین کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسین کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ نے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
حر بن یزید امام حسین کے ساتھ!
عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چارحصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک حصہ کا ایک امیر بنالیا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ کا امیر حر بن یزید تھا ، جو سب سے پہلے ایک ہزار کا لشکر لے کر امام حسین صکے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اور امام حسین کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ، اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا ۔ وہ اس وقت اپنی سابقہ کار روائی پر نادم ہوکر امام حسین کے قریب ہوتے ہوتے یک بارگی گھوڑا دوڑا کر امام حسین کے لشکر میں آملا اور عرض کیا کہ میری ابتدائی غفلت اور آپ کو واپسی کے لئے راستہ نہ دینے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک پہنچ جائیں گے ، اور آپ کی کوئی بات نہ مانیں گے ۔ اگر میں یہ جانتا تو ہر گز آپ کا راستہ نہ روکتا ۔ اب میں آپ کے پاس توبہ تائب ہوکر آیا ہوں ، اس لئے اب میری توبہ اور سزا یہی ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ قتال کرتا ہوا جان دے دوں ٗ چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا۔
اہل کوفہ سے بدظنی:
اس کے بعد امام حسین نے رؤسائے کوفہ کا نام لے لے کر پکارا : ’’اے شیث بن ربعی ، اے حجاز بن ابحر ، اے قیس بن اشعث ، اے زید بن حارث ! کیا تم لوگوں نے کوفہ بلانے کے لئے مجھے خطوط نہیں لکھے تھے ؟‘‘ لیکن یہ سب لوگ مکر گئے ۔امام حسین صنے فرمایاکہ: ’’ میرے پاس تمہارے تمام خطوط موجود ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’اے لوگو! اگر تم میرا آنا پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑ دو میں ایسی زمین میں چلا جاؤں جہاں مجھے امن ملے۔‘‘ قیس بن اشعث نے کہاکہ: ’’آپ اپنے چچا زاد بھائی ابن زیاد کے حکم پر کیوں نہیں اتر آتے ؟ وہ پھر آپ کا بھائی ہے ، آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کرے گا ۔‘‘ لیکن امام حسین نے فرمایا کہ : ’’مسلم بن عقیلص کے قتل کے بعد بھی اگر تمہاری رائے یہ ہے تو اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو قبول نہ کروں گا ۔‘‘ یہ فرماکر آپ گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔
زہیر بن القینص کی پرجوش تقریر:
اس کے بعد حضرت زہیر بن القینص کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کونصیحت کی کہ : ’’تم آل رسولؐ کے خون سے باز آجاؤ ، اگر تم اس سے باز نہ آئے تو خوب سمجھ لو کہ تم کو ابن زیاد سے کوئی فلاح نہ پہنچے گی ،بلکہ بعد میں وہ تم پر بھی قتل و غارت کرے گا۔‘‘ ان لوگوں نے زہیر بن القین صکو خوب برا بھلا کہا اور ابن زیاد کی خوب تعریف کی اور کہا کہ: ’’ ہم تم سب کو قتل کرکے ابن زیاد کے پاس بھیجیں گے۔‘‘
لڑائی کا آغاز:
جب گفتگو طویل ہونے لگی تو شمر ذی الجوشن نے اپنا پہلا تیر ان پر چلا دیا ، اس کے بعد حر بن یزید جو توبہ تائب ہوکر امام حسین کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے ٗ آگے بڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ اے اہل کوفہ! تم ہلاک و برباد ہوجاؤ ! کیا تم نے ان کو اس لئے بلایا تھا کہ جب یہ آجائیں تو تم ان کو قتل کردو ؟ تم نے تو کہا تھا کہ: ’’ ہم اپنا تن، من ،دھن سبھی کچھ ان پر قربان کردیں گے۔‘‘ اور اب تم ہی ان کے قتل کے درپے ہوگئے ہو ، ان کو تم نے قیدیوں کی مثل بنا رکھا ہے اور دریائے فرات کا جاری پانی ان پر بند کردیا ہے ٗ جسے یہودی ، نصرانی اور مجوسی سبھی پیتے ہیں اور علاقے کے خنزیر اس میں لوٹتے ہیں ، امام حسین اور ان کے اہل بیت پیاس سے مرے جارہے ہیں ، اگر تم نے اپنی اس حرکت سے توبہ نہ کی اور اس سے باز نہ آئے تو یاد رکھنا !کل قیامت کے دن میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ تمہارا پانی بند کرے گا۔‘‘
لشکر حسین کی شجاعت و بہادری:
اب حر بن یزید پر بھی تیر پھینکے گئے، وہ واپس آگئے اور امام حسین کے آگے کھڑے ہوگئے ، اس کے بعد تیر اندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا ، پھر گھمسان کی جنگ ہوئی ، فریق مخالف کے بھی کافی آدمی مارے گئے ، امام حسین کے بعض رفقاء بھی شہید ہوئے ۔ حر بن یزید نے امام حسین کے ساتھ ہوکر شدید قتال کیا اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا ۔
اس کے بعد شمر ذی الجوشن نے چاروں طرف سے امام حسین اور ان کے رفقاء پر ہلہ بول دیا ، جس کا امام حسین اور ان کے رفقاء نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ، وہ کوفہ کے لشکر پر جس طرف سے حملہ کرتے ٗ میدان صاف ہوجاتا ۔ اُدھر دوسری طرف عمرو بن سعد نے جو کمک اور تازہ دم پانچ سو گھڑ سوار بھیجے وہ مقابلہ پر آکر ڈٹ گئے ، لیکن امام حسین کے رفقاء نے ان کا بھی نہایت جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور گھوڑے چھوڑ کر میدان میں پیادہ پا آگئے۔اس وقت بھی حر بن یزید نے دشمنوں سے سخت قتال کیا ،اور اب دشمنوں نے خیموں میں آگ لگانا شروع کردی۔
گھمسان کی جنگ میں ظہر کی نماز کا رنگ:
امام حسین کے اکثر و بیشتر ساتھی شہید ہوچکے تھے اور دشمن کے دستے آپ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ حضرت ابو شمامہ صائدی ص نے امام حسین صسے عرض کیا کہ : ’’میری جان آپ پر قربان ہو ، میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے قتل کیا جاؤں ، لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا ہے ،لہٰذا یہ نماز ادا کرکے اپنے پروردگار کے پاس جاؤں ۔‘‘ امام حسین نے بآوازِ بلند اعلان کیا کہ : ’’جنگ ملتوی کردی جائے ،یہاں تک کہ ہم ظہر کی نماز ادا کرلیں۔‘‘گھمسان کی جنگ میں نمازِ ظہر کا رنگ کس کو نظر آتا تھا ؟ طرفین کی طرف سے قتل و قتال برابر جاری رہا یہاں تک کہ ابو شمامہ صائدی نماز کی حسرت دل ہی دل میں لیے شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد امام حسین نے اپنے چند اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر صلوٰۃ الخوف کے مطابق ادا فرمائی۔
نماز ادا کرلینے کے بعد امام حسین نے پھر قتال شروع کردیا، اب یہ لوگ آپ تک پہنچ چکے تھے ، حنفی آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور سب تیر اپنے بدن پر کھاتے رہے ، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گرگئے ، زہیر بن القین صنے آپ کی مدافعت میں سخت قتال کیا، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے ۔ اس وقت امام حسین کے پاس بجز اپنے چند گنے چنے رفقاء کے اور کوئی نہ رہا تھا اور بچے کھچے رفقاء بھی خوب اچھی طرح سمجھ گئے کہ اب ہم نہ امام حسین صکی جان بچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی جان ، اس لئے ہر شخص کی خواہش یہ ہوئی کہ میں امام حسین کے سامنے سب سے پہلے شہید کیا جاؤں ، اس لئے ہر شخص نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر تا رہا ، اسی میں امام حسین کے بڑے صاحب زادے (بلکہ بڑے شہزادے) علی اکبریہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے جس کا ترجمہ ہے : ’’ میں حسین بن علی کا بیٹا ہوں ، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ؐ کے بہت قریب ہیں۔‘‘اتنے میں مرہ بن منقذ آگے بڑھا اور ان کو نیزہ مار کر زمین پر گرادیا ، پھر کچھ اور بدبخت آگے بڑھے اور لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ امام حسین لاش کے قریب تشریف لائے اور کہا : ’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا ہے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے بے وقوف ہیں ، تیرے بعد اب زندگی پر خاک ہے۔‘‘اس کے بعد ان کی لاش اٹھا کر خیمہ کے پاس لائی گئی ۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسن کے بیٹے قاسم بن حسن کے سر پر تلوار ماری جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور ان کے منہ سے نکلا : ’’ہائے میرے چچاحسین‘‘۔ امام حسین نے بھاگ کر ان کو سنبھالا اور عمرو بن سعد پر تلوار سے جوابی وار کیا جس سے کہنی سے اس کا ہاتھ کٹ گیا ۔اس کے بعد امام حسین اپنے بھتیجے قاسم بن حسن کی لاش اپنے کندھے پر اٹھا کر لائے اور اپنے بیٹے اور دوسرے اہل بیت کی لاشوں کے قریب لاکر رکھ دی۔
دشمن کی فوج سے تن تنہا مقابلہ:
اب امام حسین تقریباً تن تنہا اور بے یار و مددگار رہ گئے تھے، لیکن ان کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہورہی تھی ، کافی دیر تک یہی کیفت رہی کہ جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھتا اسی طرح واپس لوٹ جاتا اور کوئی بھی آپ کے قتل کا گناہ اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا ، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب شخص مالک بن نسیر آگے بڑھا اور اس نے امام حسین کے سر مبارک پر حملہ کردیا ، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے ۔ اس وقت آپ نے اپنے چھوٹے صاحب زادے عبد اللہ بن حسین کو اپنے پاس بلایا اور ابھی اپنی گود میں بٹھایا ہی تھاکہ بنو اسد کے ایک بد نصیب شخص نے ان پر ایک تیر چلایا جس سے وہ بھی شہید ہوگئے، امام حسین نے اپنے معصوم بچے کا خون دونوں ہاتھوں میں لے کر زمین پر بکھیر دیا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کی کہ : ’’اے اللہ! تو ہی ان بدبخت اور ظالموں سے ہمارا انتقام لینا۔‘‘
اس وقت امام حسین کی پیاس حد کو پہنچ چکی تھی ، آپ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ کے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔
حسین کی شہادت:
اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسین کی طرف آگے بڑھا ، آپ اس وقت پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسین کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسینص پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ، مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر ۳۳ زخم نیزوں کے ، ۳۴ زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔رضي اللہ عنھم وأرضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ۔
تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ ٗ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن امام حسین کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں مار کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے حیائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے دردناک والم ناک واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ اور ان کے ۷۰، ۷۲ متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری جیسے ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔
تاریخی پس منظر:
حضرت معاویہ کی وفات کے بعد تخت خلافت جب خالی ہوا تو یزیدنے فوراً اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔ کیوں کہ وہ پہلے سے ہی ولی عہد مقرر ہوچکا تھا ۔لہٰذا اس نے امام حسین سے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا ۔لیکن امام حسین نے کسی کی پرواہ کیے بغیر اس بات کا سرعام اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں ہے ۔ اس لئے اسے خلیفۃ المسلمین نہیں بنایا جاسکتا ۔ یزید کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسین نے میری بیعت سے انکار کردیا ہے تو اس نے والئ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ وہ انہیں میری بیعت پر مجبور کرے اور ان کو اس معاملہ میں مزید کسی قسم کی مہلت نہ دے ۔ ولید کے پاس جب یہ خط پہنچا تو وہ فکر میں پڑگیا کہ اس حکم کی تعمیل وہ کس طرح کرے ؟ چنانچہ اس نے سابق والئ مدینہ مروان بن حکم کو مشورہ کے لئے بلایا ، اس نے کہا کہ اگر امام حسین یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو فبہا ورنہ ان کو یہیں پرقتل کردیا جائے ۔نیز مروان نے امام حسین کے سامنے ولید سے کہا کہ ابھی امام حسین تمہارے ہاتھ میں ہیں اس لئے ان سے درگزر نہ کرو اگر یہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر دوبارہ کبھی تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گے ۔ لیکن ولید ایک عافیت پسند شخص تھا اس نے مروان کی بات کی پرواہ کیے بغیر امام حسین کے لئے راستہ کھول دیا اور وہ واپس چل پڑے۔ مروان نے ولید کو ملامت کی کہ تو نے موقع ضائع کردیا ۔ مگرولید نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں امام حسین کو قتل کرنے سے ڈرتا ہوں ، کہیں ایسا نہ ہوکہ قیامت کے دن وہ اپنے خون کا مطالبہ مجھ سے کردیں ، اس لئے کہ امام حسین کے خون کا مطالبہ جس کی گردن پر ہوگا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پاسکے گا۔
مکہ کی طرف ہجرت:
امام حسین اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیئے اور وہیں جاکر پناہ گزین ہوگئے ۔ یزید کو جب ولید کے عفو و درگزر کا علم ہوا تو اس نے انہیں مدینہ سے معزول کردیا۔
اہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ آپ صنے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ہے تو کچھ حضرات شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور امام حسین کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپ فوراً کوفہ تشریف لے آیئے ، ہم سب آپ کے ہاتھ ہر بیعت کرلیں اور یزید کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیرص کو یہاں سے نکال دیں گے ۔
اس کے دو دن بعد ان لوگوں نے اسی مضمون کا ایک خط امام حسین کی طرف لکھا اور چند دوسرے خطوط بھی آپ کے پاس بھیجے ،جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں چند وفود بھی آپ کی خدمت میں بھیجے ۔ جن سے متاثر ہوکر امام حسین نے بڑی حکمت و دانش مندی سے یہ کام کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ کر اہل کوفہ کی طرف بھیجاکہ : ’’میں اپنی جگہ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں تاکہ یہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے ان کی اطلاع دیں۔ اگر حالات درست ہوئے تو میں فوراً کوفہ پہنچ جاؤں گا۔
کوفہ آنے کی دعوت:
مسلم بن عقیل صنے جب چند دن کوفہ میں گزارے تو انہیں اندازہ ہواکہ یہ لوگ واقعتاًیزید کی بیعت سے متنفر اور امام حسین کی بیعت کے لئے بے چین ہیں ، چنانچہ انہوں نے چند دنوں میں ہی اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی امام حسین کے لئے بیعت کرلی اور حسب ہدایت حضرت حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔(الکامل فی التاریخ )
دوستوں کا مشورہ:
جب لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی امام حسین نے کوفہ جانے کا عزم کرلیا ہے تو بجز عبد اللہ بن زبیرص کے اور کسی نے آپ کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا ، بلکہ بہت سے حضرات ٗحضرت حسینص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیں اور اہل عراق و اہل کوفہ کے وعدوں اور ان کی بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں ، وہاں جانے میں آپ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
کوفہ کے لئے روانگی:
لیکن امام حسین نے کسی کی ایک نہ سنی اور ۸ یا ۹ ذی الحجہ ۶۰ ھ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے ۔ کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسین کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلہ کے لئے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا ۔ امام حسین جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب امام حسین نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔
امام حسین اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ چیزیں حرکت کرتی نظر آئیں ، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھوڑ سوار ہیں ۔ اس لئے امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذِ جنگ بنالیا ۔
حر بن یزید کا ایک ہزار کا لشکر:
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سوار وں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لئے آکر پڑاؤ ڈال دیا ۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا ، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسین کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسین نے حر بن یزید سے فرمایا: ’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔‘‘ حر بن یزیدنے کہا: ’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں ۔‘‘ امام حسین نے فرمایا : ’’میں تمہارے ساتھ ہر گز نہیں جاسکتا ۔‘‘ حر بن یزید نے کہا: ’’اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔‘‘
حر بن یزید کا اعتراف حق:
اس کے بعد حر بن یزید نے کہا : ’’مجھے آپ سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، بلکہ حکم یہ ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک کہ آپ کو ابن زیاد کے پاس کوفہ نہ پہنچادوں ۔ اس لئے آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ جائے اور نہ مدینہ ، یہاں تک کہ میں ابن زیاد کو خط لکھوں اور آپ بھی یزید یا ابن زیاد کو خط لکھیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی مخلص پیدا فرمادیں اور میں آپ کے ساتھ مقاتلہ کرنے اور آپ کو ایذا پہنچانے سے کسی طرح بچ جاؤں۔ امام حسین نے عذیب اور قادسیہ کے راستہ سے بائیں جانب چلنا شروع کردیا اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر سمیت ان کے ساتھ چلتا رہا ۔(تاریخ الامم و الملوک : ج ۶ ص ۲۲۰)
امام حسین کا خواب:
امام حسین جب’’ نصر بنی مقاتل‘‘ پہنچ گئے تو آپ پر ذرا سی غنودگی طاری ہوگئی ، لیکن اس کی تھوڑی ہی دیر بعدآپ ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہتے ہوئے بیدار ہوگئے ۔ آپ کے صاحب زادے علی اکبر نے جب یہ سنا تو دوڑتے ہوئے آئے اور پوچھنے لگے : ’’ ابا جان! کیا بات ہے؟‘‘ امام حسین نے فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی گھڑ سوار میرے پاس آیاہے اور وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ : ’’ کچھ لوگ چل رہے ہیں اور ان کی موتیں بھی ان کے ساتھ چل رہی ہیں ۔‘‘ اس سے میں سمجھا کہ یہ ہماری موت ہی کی خبر ہے۔‘‘
علی اکبر کی ثابت قدمی:
صاحب زادے نے عرض کیا : ’’اباجان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟‘‘آپ نے فرمایا : ’’بلا شبہ ہم حق پر ہیں ۔‘‘ صاحب زادے نے عرض کیا : ’’پھر ہمیں کیا ڈر ہے ، جب کہ ہم حق پر مر رہے ہیں؟ ‘‘ امام حسین نے ان کو شاباش دی اور فرمایا کہ : ’’واقعی تم نے اپنے باپ کا صحیح حق ادا کیا۔‘‘(ابن جریر : ج ۶ ص ۲۳۲)
حربن یزید پر جاسوسوں کا تسلط:
اس کے بعد امام حسین آگے کی طرف چل دیئے اور جب مقام’’ نینویٰ ‘‘پر پہنچے تو ایک گھڑ سوار کوفہ سے آتا ہوا نظرآیا ، یہ سب اس کے انتظار میں اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر گئے ۔ اس نے آکر امام حسین کو تو نہیں البتہ حر بن یزید کو سلام کیا اور ابن زیاد کا خط اس کو دیا ۔حر بن یزید نے ابن زیاد کا خط پڑھ کر اس کا مضمون امام حسین کو سنا دیا اور ساتھ ہی اپنی مجبوری بھی ظاہر کردی کہ: ’’ اس وقت میرے سر پر جاسوس مسلط ہیں ، اس لئے فی الحال میں آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت نہیں کرسکتا۔‘‘
عمرو بن سعد کا چار ہزار کا لشکر:
اس کے بعد ابن زیاد نے کوفہ سے عمرو بن سعد کو مجبور کرکے چار ہزار کا لشکر دے کر امام حسین کے مقابلہ کے لئے بھیج دیا۔ عمرو بن سعد نے یہاں پہنچ کر امام حسین سے کوفہ آنے کی وجہ پوچھی ، تو آپ نے پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ:’’ اہل کوفہ نے خود مجھے یہاں آنے کی دعوت دی ہے ۔ اگر اب بھی ان کی رائے بدل گئی ہو تو میں واپس مدینہ جانے کے لئے تیار ہوں ۔‘‘ عمر بن سعد نے اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر ابن زیاد کی طرف لکھاکہ امام حسین واپس جانے کے لئے تیار ہیں ۔
پانی کی بندش:
ابن زیاد نے جواب میں لکھا کہ امام حسین کے سامنے صرف یہ ایک شرط رکھوکہ: ’’ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ ‘‘ جب وہ ایسا کرلیں گے تو پھر ہم غور کریں گے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ اور ساتھ ہی عمر بن سعد کو یہ حکم دیا کہ وہ امام حسین اور ان کے ساتھیوں کا پانی بند کردیں ۔‘‘ یہ واقعہ امام حسین کی شہادت سے تین دن پہلے کا ہے ۔
پانی پر تصادم:
چنانچہ عمر بن سعد نے ان کا پانی بالکل بند کردیا، یہاں تک کہ جب یہ سب حضرات پیاس کی شدت سے پریشان ہوئے تو امام حسین نے اپنے بھائی عباس بن علی کو تیس گھڑ سواروں اور تیس پیادہ پاؤں کے ساتھ پانی لانے کے لئے بھیج دیا ۔ جب یہ لوگ پانی لینے کے لئے جارہے تھے تو راستے میں ان کا عمر بن سعد کی فوج سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن اس کے باوجود پانی کی تقریباً بیس مشکیں یہ حضرات بھر کر لے آئے ۔
عمرو بن سعد سے مکالمہ:
اس کے بعد امام حسین نے عمر بن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ آج رات کو ہماری ملاقات ایک دوسرے کے لشکروں کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ ہم سب بالمشافہ ایک دوسرے کے سامنے گفتگو کرسکیں۔‘‘ عمر بن سعد نے آپ کا یہ پیغام قبول کیا اور رات کو دونوں لشکروں کی باہم ملاقات ہوئی۔
تین شرطیں:
ملاقات میں امام حسین نے اپنے متعلقہ عمر بن سعد کے سامنے تین شرطیں رکھیں : ’’ایک یہ کہ میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔ دوسری یہ کہ میں یزید کے پاس چلا جاؤں اور خود اس سے اپنا معاملہ طے کرلوں ۔ تیسری یہ کہ مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچادو ، وہ لوگ جس حال میں ہوں گے میں بھی اسی حال میں رہ لوں گا۔‘‘ عمر بن سعد نے امام حسین کی یہ تینوں باتیں سن کر ابن زیاد کی طرف دوبارہ ایک خط لکھا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھادی اور مسلمانوں کا کلمہ متفق کردیا ۔ مجھ سے امام حسین نے ان (مذکورہ) تین باتوں کا اختیار مانگا ہے جن سے آپ کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور امت کی اسی میں صلاح و فلاح ہے۔‘‘ ابن زیاد نے جب خط پڑھا تو وہ کافی متاثر ہوا اور کہا کہ یہ خط ایک ایسے شخص کا ہے جو امیر کی اطاعت بھی چاہتا ہے اور اپنی قوم کی عافیت کا بھی خواہش مند ہے ۔(عمرو بن سعد) ہم نے اس خط کو قبول کرلیا ہے ۔
شمر ذی الجوشن کی مخالفت:
لیکن شمر ذی الجوشن جو ابن زیاد کے پاس ہی ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ،کہنے لگا کہ: ’’ کیا آپ امام حسین کو مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوت حاصل کرکے دوبارہ تمہارے مقابلے کے لئے نکل کھڑے ہو ں؟ یاد رکھیں! اگر آج وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی تم ان پر قابو نہ پاسکو گے ۔ مجھے اس خط میں عمر بن سعد کی سازش معلوم ہوتی ہے ۔ کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ وہ راتوں کو آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘
ابن زیاد کا جواب:
ابن زیاد نے شمر کی رائے کو قبول کرتے ہوئے عمر وبن سعد کی طرف اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور اسے شمر کے ہاتھ روانہ کیا اوراسے ہدایت کی کہ اگر عمرو بن سعد میرے اس حکم کی فوراً تعمیل نہ کرے تو تو اسے قتل کردینا اور اس کی جگہ لشکر کا امیر تو خود بن جانا۔
عمرو نے دور سے ہی شمر کو پڑھ لیا:
شمر جب ابن زیاد کا خط لے عمرو بن سعد کے پاس پہنچا تو وہ سمجھ گئے کہ شمر کے مشورہ سے یہ صورت عمل وجود میں آئی ہے اور میرا مشورہ ردّ کردیا گیا ہے ۔ اس لئے عمرو بن سعد نے شمر سے کہا کہ: ’’تونے بڑا ظلم کیا ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متفق ہورہا تھا اور تونے اس کو ختم کرکے قتل و قتال کا بازار گرم کردیا ہے ۔‘‘ بالآخر امام حسین کو یہ پیام پہنچایا گیا ، توآپ نے اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ : ’’ اس ذلت سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘
خواب میں آنحضرت ؐ کی زیارت:
شمر ذی الجوشن محرم کی نویں تاریخ کو اس محاذ پر پہنچا تھا ۔ امام حسین اس وقت اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ پر کچھ غنودگی سی طاری ہوگئی اور آنکھ لگ گئی ، لیکن پھر اچانک ہی ایک آواز کے ساتھ آپ بیدار ہوگئے ۔ آپ کی ہمشیرہ زینب نے جب یہ آواز سنی تو دوڑتی ہوئی آئیں اورپوچھا کہ یہ آواز کیسی تھی؟ ۔ آپ نے فرمایا کہ : ’’ابھی ابھی خواب میں مجھے رسول اللہ ؐ کی زیارت ہوئی ، آپ فرمارہے تھے کہ: ’’ اب تم ہمارے پاس آنے والے ہو۔‘‘ حضرت زینب یہ سن کر روپڑیں ،لیکن امام حسین صنے انہیں چپ کرایا اور تسلی دی ۔اتنے میں شمر کا لشکر سامنے آگیا ، آپ کے بھائی حضرت عباس آگے بڑھے اور اپنے مدمقابل حریف سے گفتگو شروع کی ، لیکن اس نے بلا مہلت قتال کا اعلان کردیا ۔ حضرت عباس نے جب جنگ کا اعلان سنا تہ انہوں نے جاکر امام حسین کو اس کی اطلاع دے دی۔ امام حسین نے فرمایا : ’’کہ ان سے کہوکہ آج کی رات قتال ملتوی کردیں تاکہ آج کی رات میں وصیت اور نماز و دعاء اور استغفار میں گزار لوں ۔‘‘ حضرت عباس نے امام حسین کا پیغام جاکر شمر تک پہنچادیا۔ شمر ذی الجوشن ور عمر وبن سعد نے لوگوں سے مشورہ کیا اور آپ کو اس رات عبادت کرنے کی مہلت دے دی اور واپس چل دیئے۔
عاشورہ کی رات اہل بیت کے سامنے تقریر:
امام حسین نے رات کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا جس کا لب لباب یہ تھا: ’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ٗ راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی ۔ اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے ہمیں شرافت نبوت اسے نوازا ، ہمیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے ، جن سے ہم آپ کی آیات سمجھیں اور ہمیں آپ نے قرآن پاک سکھلایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی ، ہمیں آپ اپنے شکر گزار بندوں میں داخل فرمالیجئے۔‘‘
اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ میرے علم میں آج تک کسی شخص کے ساتھی ایسے وفا شعار اور نیکو کار نہیں ہیں جیسے میرے ساتھی ہیں اور نہ ہی کسی کے اہل بیت میرے اہل بیت سے زیادہ ثابت قدم نظر آتے ہیں ۔ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ میری طرف سے بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کل ہمارا آخری دن ہے ، میں آپ سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ سب اس رات کی تاریکی میں متفرق ہوجاؤ اور جہاں پناہ ملے وہاں چلے جاؤ ، اور میرے اہل بیت میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑلو ، اور مختلف علاقوں میں پھیل جاؤ ، کیوں کہ دشمن میرا طلب گار ہے ، وہ مجھے پائے گا تو دوسروں کی طرف التفات نہ کرے گا۔‘‘
یہ تقریر سن کر آپ کے بھائی ، آپ کی اولاد ، آپ کے بھتیجے اور حضرت عبد اللہ بن جعفر کے صاحب زادے یک زبان ہوکر بولے : ’’ واللہ! ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے ، ہمیں اللہ تعالیٰ آپ کے بعد باقی نہ رکھے۔‘‘
عاشورہ کی رات بنو عقیل کے سامنے تقریر:
اس کے بعد امام حسین نے بنو عقیل کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’تمہارے ایک بزرگ مسلم بن عقیل شہید ہوچکے ہیں ٗتمہاری طرف سے وہی ایک کافی ہیں ٗ تم سب واپس چلے جاؤ ، میں تمہیں خوشی سے اجازت دیتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ : ’’ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ اپنے بزرگوں اور بڑوں کو موت کے سامنے چھوڑ کر اپنی جان بچا لائے ، بلکہ اللہ کی قسم! ہم تو آپ پر اپنی جانیں اور اولاد و اموال سب کچھ نچھاور کردیں گے۔‘‘
اپنی ہمشیرہ زینب کو وصیت:
آپ کے ہمشیرہ حضرت زینب بے قرار ہوکر رونے لگیں تو آپ نے انہیں تسلی دی اور یہ وصیت فرمائی : ’’میری بہن! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت پر نہ تم اپنے کپڑے پھاڑنا اور نہ ہی سینہ کوبی کرنا ، نیز چیخ اور چلا کر رونے سے بھی گریز کرنا ۔‘‘ ہمشیرہ کو یہ وصیت فرماکر امام حسینص باہر آگئے اور اپنے اصحاب کو جمع کرکے تمام شب تہجد اور دعاء و استغفار میں مشغول رہے ۔ یہ عاشورہ کی رات تھی اور صبح کوعاشورہ (۱۰ محرم) کا دن تھا ۔( تاریخ یعقوبی و ابن جریر : ج ۶ ص ۲۴۰)
یوم عاشورہ کی صبح:
دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسین کے سامنے آگیا ۔ اس وقت امام حسین کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ نے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
حر بن یزید امام حسین کے ساتھ!
عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چارحصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک حصہ کا ایک امیر بنالیا تھا ۔ ان میں سے ایک حصہ کا امیر حر بن یزید تھا ، جو سب سے پہلے ایک ہزار کا لشکر لے کر امام حسین صکے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اور امام حسین کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ، اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا ۔ وہ اس وقت اپنی سابقہ کار روائی پر نادم ہوکر امام حسین کے قریب ہوتے ہوتے یک بارگی گھوڑا دوڑا کر امام حسین کے لشکر میں آملا اور عرض کیا کہ میری ابتدائی غفلت اور آپ کو واپسی کے لئے راستہ نہ دینے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک پہنچ جائیں گے ، اور آپ کی کوئی بات نہ مانیں گے ۔ اگر میں یہ جانتا تو ہر گز آپ کا راستہ نہ روکتا ۔ اب میں آپ کے پاس توبہ تائب ہوکر آیا ہوں ، اس لئے اب میری توبہ اور سزا یہی ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ قتال کرتا ہوا جان دے دوں ٗ چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا۔
اہل کوفہ سے بدظنی:
اس کے بعد امام حسین نے رؤسائے کوفہ کا نام لے لے کر پکارا : ’’اے شیث بن ربعی ، اے حجاز بن ابحر ، اے قیس بن اشعث ، اے زید بن حارث ! کیا تم لوگوں نے کوفہ بلانے کے لئے مجھے خطوط نہیں لکھے تھے ؟‘‘ لیکن یہ سب لوگ مکر گئے ۔امام حسین صنے فرمایاکہ: ’’ میرے پاس تمہارے تمام خطوط موجود ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’اے لوگو! اگر تم میرا آنا پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑ دو میں ایسی زمین میں چلا جاؤں جہاں مجھے امن ملے۔‘‘ قیس بن اشعث نے کہاکہ: ’’آپ اپنے چچا زاد بھائی ابن زیاد کے حکم پر کیوں نہیں اتر آتے ؟ وہ پھر آپ کا بھائی ہے ، آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کرے گا ۔‘‘ لیکن امام حسین نے فرمایا کہ : ’’مسلم بن عقیلص کے قتل کے بعد بھی اگر تمہاری رائے یہ ہے تو اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو قبول نہ کروں گا ۔‘‘ یہ فرماکر آپ گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔
زہیر بن القینص کی پرجوش تقریر:
اس کے بعد حضرت زہیر بن القینص کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کونصیحت کی کہ : ’’تم آل رسولؐ کے خون سے باز آجاؤ ، اگر تم اس سے باز نہ آئے تو خوب سمجھ لو کہ تم کو ابن زیاد سے کوئی فلاح نہ پہنچے گی ،بلکہ بعد میں وہ تم پر بھی قتل و غارت کرے گا۔‘‘ ان لوگوں نے زہیر بن القین صکو خوب برا بھلا کہا اور ابن زیاد کی خوب تعریف کی اور کہا کہ: ’’ ہم تم سب کو قتل کرکے ابن زیاد کے پاس بھیجیں گے۔‘‘
لڑائی کا آغاز:
جب گفتگو طویل ہونے لگی تو شمر ذی الجوشن نے اپنا پہلا تیر ان پر چلا دیا ، اس کے بعد حر بن یزید جو توبہ تائب ہوکر امام حسین کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے ٗ آگے بڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ اے اہل کوفہ! تم ہلاک و برباد ہوجاؤ ! کیا تم نے ان کو اس لئے بلایا تھا کہ جب یہ آجائیں تو تم ان کو قتل کردو ؟ تم نے تو کہا تھا کہ: ’’ ہم اپنا تن، من ،دھن سبھی کچھ ان پر قربان کردیں گے۔‘‘ اور اب تم ہی ان کے قتل کے درپے ہوگئے ہو ، ان کو تم نے قیدیوں کی مثل بنا رکھا ہے اور دریائے فرات کا جاری پانی ان پر بند کردیا ہے ٗ جسے یہودی ، نصرانی اور مجوسی سبھی پیتے ہیں اور علاقے کے خنزیر اس میں لوٹتے ہیں ، امام حسین اور ان کے اہل بیت پیاس سے مرے جارہے ہیں ، اگر تم نے اپنی اس حرکت سے توبہ نہ کی اور اس سے باز نہ آئے تو یاد رکھنا !کل قیامت کے دن میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ تمہارا پانی بند کرے گا۔‘‘
لشکر حسین کی شجاعت و بہادری:
اب حر بن یزید پر بھی تیر پھینکے گئے، وہ واپس آگئے اور امام حسین کے آگے کھڑے ہوگئے ، اس کے بعد تیر اندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا ، پھر گھمسان کی جنگ ہوئی ، فریق مخالف کے بھی کافی آدمی مارے گئے ، امام حسین کے بعض رفقاء بھی شہید ہوئے ۔ حر بن یزید نے امام حسین کے ساتھ ہوکر شدید قتال کیا اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا ۔
اس کے بعد شمر ذی الجوشن نے چاروں طرف سے امام حسین اور ان کے رفقاء پر ہلہ بول دیا ، جس کا امام حسین اور ان کے رفقاء نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ، وہ کوفہ کے لشکر پر جس طرف سے حملہ کرتے ٗ میدان صاف ہوجاتا ۔ اُدھر دوسری طرف عمرو بن سعد نے جو کمک اور تازہ دم پانچ سو گھڑ سوار بھیجے وہ مقابلہ پر آکر ڈٹ گئے ، لیکن امام حسین کے رفقاء نے ان کا بھی نہایت جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور گھوڑے چھوڑ کر میدان میں پیادہ پا آگئے۔اس وقت بھی حر بن یزید نے دشمنوں سے سخت قتال کیا ،اور اب دشمنوں نے خیموں میں آگ لگانا شروع کردی۔
گھمسان کی جنگ میں ظہر کی نماز کا رنگ:
امام حسین کے اکثر و بیشتر ساتھی شہید ہوچکے تھے اور دشمن کے دستے آپ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ حضرت ابو شمامہ صائدی ص نے امام حسین صسے عرض کیا کہ : ’’میری جان آپ پر قربان ہو ، میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے قتل کیا جاؤں ، لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا ہے ،لہٰذا یہ نماز ادا کرکے اپنے پروردگار کے پاس جاؤں ۔‘‘ امام حسین نے بآوازِ بلند اعلان کیا کہ : ’’جنگ ملتوی کردی جائے ،یہاں تک کہ ہم ظہر کی نماز ادا کرلیں۔‘‘گھمسان کی جنگ میں نمازِ ظہر کا رنگ کس کو نظر آتا تھا ؟ طرفین کی طرف سے قتل و قتال برابر جاری رہا یہاں تک کہ ابو شمامہ صائدی نماز کی حسرت دل ہی دل میں لیے شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد امام حسین نے اپنے چند اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر صلوٰۃ الخوف کے مطابق ادا فرمائی۔
نماز ادا کرلینے کے بعد امام حسین نے پھر قتال شروع کردیا، اب یہ لوگ آپ تک پہنچ چکے تھے ، حنفی آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور سب تیر اپنے بدن پر کھاتے رہے ، یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گرگئے ، زہیر بن القین صنے آپ کی مدافعت میں سخت قتال کیا، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے ۔ اس وقت امام حسین کے پاس بجز اپنے چند گنے چنے رفقاء کے اور کوئی نہ رہا تھا اور بچے کھچے رفقاء بھی خوب اچھی طرح سمجھ گئے کہ اب ہم نہ امام حسین صکی جان بچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی جان ، اس لئے ہر شخص کی خواہش یہ ہوئی کہ میں امام حسین کے سامنے سب سے پہلے شہید کیا جاؤں ، اس لئے ہر شخص نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر تا رہا ، اسی میں امام حسین کے بڑے صاحب زادے (بلکہ بڑے شہزادے) علی اکبریہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے جس کا ترجمہ ہے : ’’ میں حسین بن علی کا بیٹا ہوں ، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ؐ کے بہت قریب ہیں۔‘‘اتنے میں مرہ بن منقذ آگے بڑھا اور ان کو نیزہ مار کر زمین پر گرادیا ، پھر کچھ اور بدبخت آگے بڑھے اور لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ امام حسین لاش کے قریب تشریف لائے اور کہا : ’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا ہے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے بے وقوف ہیں ، تیرے بعد اب زندگی پر خاک ہے۔‘‘اس کے بعد ان کی لاش اٹھا کر خیمہ کے پاس لائی گئی ۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسن کے بیٹے قاسم بن حسن کے سر پر تلوار ماری جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور ان کے منہ سے نکلا : ’’ہائے میرے چچاحسین‘‘۔ امام حسین نے بھاگ کر ان کو سنبھالا اور عمرو بن سعد پر تلوار سے جوابی وار کیا جس سے کہنی سے اس کا ہاتھ کٹ گیا ۔اس کے بعد امام حسین اپنے بھتیجے قاسم بن حسن کی لاش اپنے کندھے پر اٹھا کر لائے اور اپنے بیٹے اور دوسرے اہل بیت کی لاشوں کے قریب لاکر رکھ دی۔
دشمن کی فوج سے تن تنہا مقابلہ:
اب امام حسین تقریباً تن تنہا اور بے یار و مددگار رہ گئے تھے، لیکن ان کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہورہی تھی ، کافی دیر تک یہی کیفت رہی کہ جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھتا اسی طرح واپس لوٹ جاتا اور کوئی بھی آپ کے قتل کا گناہ اپنے سر لینا نہیں چاہتا تھا ، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب شخص مالک بن نسیر آگے بڑھا اور اس نے امام حسین کے سر مبارک پر حملہ کردیا ، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے ۔ اس وقت آپ نے اپنے چھوٹے صاحب زادے عبد اللہ بن حسین کو اپنے پاس بلایا اور ابھی اپنی گود میں بٹھایا ہی تھاکہ بنو اسد کے ایک بد نصیب شخص نے ان پر ایک تیر چلایا جس سے وہ بھی شہید ہوگئے، امام حسین نے اپنے معصوم بچے کا خون دونوں ہاتھوں میں لے کر زمین پر بکھیر دیا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کی کہ : ’’اے اللہ! تو ہی ان بدبخت اور ظالموں سے ہمارا انتقام لینا۔‘‘
اس وقت امام حسین کی پیاس حد کو پہنچ چکی تھی ، آپ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ، مگر حصین بن نمیر ایک ظالم شخص نے آپ کی طرف ایک تیر پھینکا جو آپ کے منہ پر جاکر لگا جس سے آپ کے دہن مبارک سے خون پھوٹنے لگ گیا۔
حسین کی شہادت:
اس کے بعد شمر ذی الجوشن دس آدمی اپنے ساتھ لے کر امام حسین کی طرف آگے بڑھا ، آپ اس وقت پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسین کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو آواز لگائی کہ :’’ سب یک بارگی ان پر حملہ کردو ۔‘‘ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسینص پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ، مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے ، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔ بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر ۳۳ زخم نیزوں کے ، ۳۴ زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔رضي اللہ عنھم وأرضاہ ورزقنا حبہ وحب من والاہ۔
Tags:
اسلامی واقعات