ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی بک اسٹور پر چڑھتی ہے اور ایک پینسل اور ایک دس روپے والی کاپی خریدتی ہے اور پھر وہیں کھڑی ہو کر کہتی ہے انکل ایک کام کہوں کروگے؟جی بیٹا بولو کیا کام ہے؟انکل وہ کلر پینسل کا پیکٹ کتنے کا ہے، مجھے چاہیے، ڈرائنگ ٹیچر بہت مارتی ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کرکے پیسے دے دوں گی.شاپ کیپر کی آنکھیں نم ہیں، بولتا ہے بیٹا کوئی بات نہیں یہ کلر پینسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکاندار سے اس طرح کوئی چیز مت مانگنا، لوگ بہت برے ہیں، کسی پر بھروسہ مت کیا کرو.جی انکل بہت بہت شکریہ میں آپ کے پیسے جلد دے دوں گی اور بچی چلی جاتی ہے.ادھر شاپ کیپر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکاندار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہوگا. ٹیچرز سے گذارش ہے خدارا اگر بچے کوئی کاپی پینسل کلر پینسل وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ کہیں اس کی غربت اس کے آڑے تو نہیں آ رہی، اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ ٹیچر حضرات مل کر اٹھا لیا کریں، یقین جانیں ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں.
Tags:
میری ڈائری کا ایک ورق