بنی اسرائیل کا نظام یوں چلتا تھا کہ ہمیشہ ان لوگوں میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ جو ملکی نظام چلاتا تھا اور ایک نبی ہوتا تھا جو نظام شریعت اور دینی امور کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ اور یوں دستور چلا آتا تھا کہ بادشاہی یہود ابن یعقوب علیہ السلام کے خاندان میں رہتی تھی اور نبوت لادی بن یعقوب علیہ السلام کے خاندان کا طرئہ امتیاز تھا۔ حضرت شمویل علیہ السلام جب نبوت
"سے سرفراز کئے گئے تو ان کے زمانے میں کوئی بادشاہ نہیں تھا تو بنی اسرائیل نے آپ سے درخواست کی کہ آپ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تو آپ نے حکم خداوندی کے مطابق ''طالوت''کو بادشاہ بنا دیا جو بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑا عالم تھا۔ لیکن بہت ہی غریب و مفلس تھا۔ چمڑا پکا کر یا بکریوں کی چرواہی کر کے زندگی بسر کرتا تھا۔ اس پر بنی اسرائیل کو اعتراض ہوا کہ طالوت شاہی خاندان سے نہیں ہے لہٰذا یہ کیونکر اور کیسے ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے اس سے زیادہ تو بادشاہت کے حق دار ہم لوگ ہیں کیونکہ ہم لوگ شاہی خاندان سے ہیں۔ پھر طالوت کے پاس کچھ زیادہ مال بھی نہیں ہے۔ ایک غریب و مفلس انسان بھلا تختِ شاہی کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت شمویل علیہ السلام نے یہ تقریر فرمائی کہ:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے۔ اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے۔"
ترجمہ کنزالایمان:۔ فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے۔ اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے۔"
(پ۲،البقرۃ:۲۴۷،۲۴۸)
"چنانچہ تھوڑی ہی دیر کے بعد چار فرشتے صندوق لے کر آگئے اور صندوق کو حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر تمام بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہی کو تسلیم کرلیا اور آپ نے بادشاہ بن کر نہ صرف انتظام ملکی سنبھالا بلکہ بنی اسرائیل کی فوج بھرتی کر کے قوم عمالقہ کے کفار سے جہاد بھی فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں فرماتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :۔
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا"
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں فرماتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :۔
ترجمہ کنزالایمان:۔اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا"
بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ بولے اسے ہم پر بادشاہی کیوں کر ہوگی؟ اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے۔ بےشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے، اگر ایمان رکھتے ہو ۔
(پ۲،البقرۃ:۲۴۷،۲۴۸)
"درسِ ہدایت:۔(۱)اس واقعہ سے جہاں بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے ایک بہت ہی واضح درس یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نوازش کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ چاہے تو چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں بڑے سے بڑا آدمی بنادے۔ دیکھ لو حضرت طالوت ایک بہت ہی کم درجے کے آدمی تھے اور اتنے مفلس تھے کہ یا تو دبگر تھے جو چمڑے کو دباغت دے کر اپنی روزی حاصل کرتے تھے یا بکریاں چرا کر اس کی اجرت سے گزر بسر کرتے تھے مگر لمحہ بھر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صاحب ِ تخت و تاج بنا کر بادشاہ بنا دیا۔
(۲)اس واقعہ سے اور قرآن مجید کی عبارت سے معلوم ہوا کہ جسمانی توانائی اور علم کی وسعت بادشاہی کے لئے مالداری سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ بغیر جسمانی طاقت اور علم کے نظامِ ملکی کو چلانا اور سلطنت کا انتظام کرنا تقریباً محال اور ناممکن ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ علم کا درجہ مال سے بہت بلند تر ہے۔"
(۲)اس واقعہ سے اور قرآن مجید کی عبارت سے معلوم ہوا کہ جسمانی توانائی اور علم کی وسعت بادشاہی کے لئے مالداری سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ بغیر جسمانی طاقت اور علم کے نظامِ ملکی کو چلانا اور سلطنت کا انتظام کرنا تقریباً محال اور ناممکن ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ علم کا درجہ مال سے بہت بلند تر ہے۔"
(واللہ تعالیٰ اعلم)
اگلا واقعہ پڑھنے کے لیئے نیچے اس ( ← ) نشان پر کلک کیجیئے
پچھلا واقعہ پڑھنے کے لیئے نیچے اس( → ) نشان پر کلک کیجیئے