چند دن پہلے میں نے یہ کہانی پڑھی۔ دل کو چھو لینے والی اس سچی کہانی نے مجھے تو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک امریکی نوجوان رابرٹ پیٹرسن نے یہ واقعہ سچی کہانیاں شائع کرنے والی ایک ویب سائیٹ کو ارسال کیا تھا۔اس کا آزاد ترجمہ نذر قارئین ہے۔
پیٹرسن لکھتے ہیں: ’’میں نے پہلی بار اس معصوم بچی کو ساحل سمندر پر دیکھا تھا۔ میرا گھر سمندر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ جب میں کبھی پریشان یا دباؤ کا شکار ہوجاؤں تو ساحل کا رخ کرتا ہوں ۔اس روز بھی میں ڈپریشن کی کیفیت میں ساحل سمندر پر پہنچا۔ وہاں میں نے اس چھ سالہ خوبصورت بچی کو ریت کے گھروندے بناتے دیکھا۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو اس نے سر اٹھایا، اپنی نیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ہیلو کہا۔ میں نے بے دلی سے جواب دیا۔ میں کسی چھوٹے بچے کے ساتھ گفتگو کے موڈ میں بالکل نہیں تھا۔ بچی نے خود ہی بات بڑھائی ۔’’میں کنسٹرکشن کر رہی ہوں‘‘، اس جملے پر میں نے رسماً پوچھا، ’’کیا بنا رہی ہو؟‘‘ بچی دھیرے سے مسکرائی اور بولی، ’’ پتہ نہیں، میں تو ریت کا لمس محسوس کر رہی ہوں۔‘‘ ایک بچے سے یہ خوبصورت اور گہری بات سن کر میں پہلی بار چونکا۔
مجھے لگا کہ ریت کا لمس محسوس کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے جوتے اتارے اور ننگے پاؤں چلنے لگا۔ اتنے میں ایک سینڈ پائپر پرندہ (پانی میں پھرنے والی لمبی چونچ والی چڑیا کی ایک قسم) غوطہ مار کر نیچے اترا۔ بچی کی آنکھیں جگمگانے لگیں، ’’یہ خوشی ہے‘‘۔ ’’ کیا خوشی ہے؟‘‘ کچھ نہ سمجھتے ہوئے میں نے پوچھا۔ بچی نے سنجیدگی سے جواب دیا، ’’میری ماما کہتی ہیں، سینڈ پائپرپرندہ ہمیشہ خوشی لاتا ہے۔‘‘ اتنے میں وہ پرندہ اڑ گیا۔ تلخی سے میں نے سوچا، گڈبائی خوشی، ہیلو پریشانی۔ دراصل میں اس وقت بہت ڈپریس تھا۔ زندگی میرے کنٹرول سے بالکل ہی باہر ہو چکی تھی۔
میں شاید دوسری سمت چل پڑتا ،مگراس بچی نے ہمت نہیں ہاری، اس بار اس نے براہ راست بات کی، آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے قدرے رکھائی سے جواب دیا:’’رابرٹ پیٹرسن‘‘ جواباً اپنا تعارف کراتے ہوئے بولی، ’’میرا نام وینڈی ہے۔ میں چھ سال کی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی، ’’مسٹر پیٹرسن آپ اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس کی معصوم بےریا ہنسی دیکھ کر اپنی تمام تر پریشانیوں کے باوجود بےاختیار میرے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ میں نے ہاتھ ہلایا اور ایک طرف کو چل پڑا۔ وینڈی نے چلا کر پیچھے سے کہا، ’’مسٹر پی کسی روز دوبارہ تشریف لائیے گا، ہم ایک اور اچھے دن کو انجوائے کریں گے۔‘‘
اس واقعے کو کئی ہفتے گزر گئے۔ میری پریشانیاں بڑھتی گئیں، دباؤ اور وقت کی کمی کے باعث دوبارہ مجھے بیچ پر جانے کا موقع ہی نہ ملا۔ ملازمت کی پریشانیاں، ماں کی علالت، کچھ اور مسائل۔ آخر ایک روز ماں دنیا سے رخصت ہوگئی۔ میں شدید صدمے میں رہا۔ چند ہفتوں کے بعد آخر ایک روز میں نے برتن دھوتے ہوئے سوچا کہ مجھے آج ایک سینڈ پائپر پرندے کی شدید ضرورت ہے، جو میری زندگی میں خوشی کی ایک کرن تو لے آئے۔ ہوا میں خاصی خنکی تھی۔ میں نے اپنا کوٹ سنبھالا اور ساحل سمندر کی جانب روانہ ہوگیا۔
یخ بستہ ہوا مجھے ایک خاص کیفیت میں لے گئی۔ میں اس بچی وینڈی کو بھول چکا تھا کہ اچانک وہ ایک جانب سے نمودار ہوئی۔ اس نے مجھے پہچاننے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔’’مسٹر پی، آپ کیسے ہیں؟‘‘ میں خاموشی سے واک کرتا رہا، وہ بھی ساتھ چلنے لگی۔ میں نے ویسے ہی اس سے پوچھا، تم کہاں رہتی ہو۔اس نے انگلی کے اشارے سے ساحل کے قریب بنے ایک ہٹ کی جانب اشارہ کیا۔ ’’تم کون سے سکول جاتی ہو؟‘‘ اس سوال پر وینڈی چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئی، پھر دھیرے سے بولی،:’’میری ماما کہتی ہیں ہم چھٹیوں پر ہیں۔‘‘ واک کرتے ہوئے وہ بچوں کے مخصوص انداز میں بولتی رہی۔ میں اس وقت ذہنی طور پر حاضر نہیں تھا۔ بار بار توجہ اپنے مسائل کی جانب چلی جاتی تھی۔ آخر میں نے وینڈی کو خاموش رہنے کا کہا، ’’میں کچھ دیر تنہا رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، مردہ سے لہجے میں اس نے پوچھا،’’ کیوں؟‘‘ اس بات پر میں پھٹ پڑا۔ ’’اس لیے کہ میری ماں مر گئی ہے.‘‘
اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ مجھے یہ بات ایک چھ سالہ بچی کے سامنے نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وینڈی کچھ دیر تک خاموش کھڑی رہی، پھر بولی،’’اوہ، پھر تو آج ایک برا دن ہوا۔‘‘میں نے تلخی سے جواب دیا، ’’ہاں آج کا دن، کل کا دن ، پرسوں کا دن اور اس سے پہلے کے دن سب کے سب میرے لیے برے دن تھے۔‘‘وینڈی نے معصومیت سے پوچھا، ’’کیا اس سے تکلیف ہوئی تھی؟‘‘میں نے حیرت سے پوچھا،’’ کس بات سے ؟‘‘ چھ سالہ بچی نے اس بار بڑوں والی سنجیدگی سے پوچھا، ’’جب وہ فوت ہوئی تھیں،تب‘‘، ’’ظاہر ہے، مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔‘‘ میں نے اس بار بھی تیکھے لہجے میں جواب دیا۔
اس کے بعد میں ڈپریشن کے عالم میں واپسی کی جانب چل پڑا۔ مہینے ڈیڑھ بعد میں دوبارہ ساحل سمندر پر گیا۔ وہ بچی وینڈی مجھے نظر نہ آئی۔ مجھے اس دن والے رویے پر شرمندگی تھی۔ جب مجھے وہ کہیں نہ ملی تو میں اسی ہٹ کی جانب چل پڑا۔
میں نے دستک دی تو ایک شہد رنگ بالوں والی خاتون نے دروازہ کھولا۔ ہیلو میں رابرٹ پیٹرسن ہوں، میں نے آپ کی بیٹی وینڈی کو آج بہت مس کیا ہے، اس لیے دستک دی کہ اس کا پوچھ سکوں۔ خاتون نے نرم لہجے میں میرا خیر مقدم کیا، ’’مسٹر پیٹرسن آپ اندر آئیے۔ وینڈی آپ کا بہت ذکر کرتی رہی۔ اگر اس نے آپ کو زیادہ تنگ کیا تو براہ مہربانی میری معذرت قبول کیجیے۔‘‘ شرمندگی سے میں نے فوراً تردید کی، ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں، وہ تو بہت اچھی بچی ہے، وہ ہے کہاں؟‘‘ اس پر کچھ دیر کے لیے سناٹا چھا گیا۔ خاتون کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر خزاں اتر آئی۔ ایک دو منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ بولی،’’وینڈی پچھلے ہفتے مر گئی ہے۔ مسٹر پیٹرسن! اسے خون کا کینسر تھا۔‘‘
یہ فقرہ میرے اوپر بجلی بن کر گرا۔ میں شاک میں آگیا، کچھ بولا ہی نہ گیا۔ اس کی ماں بھرائی آواز میں کہنے لگی، ’’ آخری سٹیج تھی، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ وینڈی کو یہ ساحل پسند تھا، اس لیے میں اس کے آخری دنوں کے لیے اسے یہاں لے آئی تھی۔ وہ یہاں بہت خوش تھی۔ کہتی تھی کہ ہر دن ایک اچھا دن ہے۔ پھر پچھلے دو تین ہفتوں کے دوران اس کی طبعیت زیادہ تیزی سے بگڑتی گئی اور چند دن پہلے وہ انتقال کر گئی۔‘‘
مجھ سے کھڑا نہ ہوا جا رہا تھا، میں قریب رکھی کرسی پر گویا گر سا پڑا۔ وینڈی کی ماں اچانک چونکی۔ مسٹر پیٹرسن ! وینڈی نے آپ کے لیے ایک لفافہ دیا تھا۔ وہ دوسرے کمرے کی جانب لپکی اور ایک خاکی لفافہ لے کر واپس آئی۔ کانپتے ہاتھوں سے میں نے وہ لفافہ کھولا۔ اندر وینڈی نے اپنے بچگانہ انداز میں ایک ڈرائنگ بنائی تھی۔ ایک زرد ساحل، نیلگوں سمندر اور ایک براؤن سینڈ پائپر پرندہ۔ ڈرائنگ کے نیچے موٹے موٹے حرفوں میں لکھا تھا، ’’سینڈ پائپر آپ کے لیے خوشی لاتا ہے
(A Sandpiper to bring you joy)۔‘‘
میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ میرا دل جو مدتوں سے محبت کو بھول چکا تھا، اچانک ہی دھڑکنے لگا، اس سے محبت کا چشمہ سا بہنے لگا۔ میں نے بے اختیار روتے ہوئے کہا آئی ایم سوری، آئی ایم سوری، وینڈی کی ماں پہلے ہی ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔
وہ چھوٹی مگر بیش قیمت ڈرائنگ میری سٹڈی کی ایک دیوار پر فریم ہوئی دیوار پر آویزاں ہے۔ چھ لفظ، اس کی چھ سالہ زندگی کے برابر۔ مگر ان الفاظ نے مجھے وہ سبق سکھایا جو تیز رفتار مشینی زندگی چھین چکی تھی۔ اس چھ سالہ نیلگوں آنکھوں اور زرد ریت جیسے بالوں والی معصوم بچی نے مجھے محبت کا سبق سکھایا۔‘‘
یہ سچ ہے کہ مشکلات اور مصیبتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں۔ خوشیوں کو اسی پرپیچ زندگی کے درمیان سے دریافت کرنا اور اس کے رس کو کشید کرنا پڑتا ہے۔ دباؤ چاہے جس قدر بڑھ جائے، زندگی میں بریک لینا ضروری ہے. پھولوں کی خوشبو سونگھنا، ہواؤں میں رچی بسی مسرت کے ذائقے کو محسوس کرنا اور اپنے دل کے ویران نگر کو آباد رکھنا بھی ایک ہنر ہے، ایک فن ہے۔ یہ فن ہر ایک کو سیکھنا پڑتا ہے، سیکھنا پڑے گا، چاہے کسی بچے ہی کو استاد بنایا جائے۔
Tags:
میری ڈائری کا ایک ورق