حافظ ابن قیمؒ نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ ایک چیونٹی ایک مرتبہ اپنے بل سے نکلی، اسے بل سے باہر مری ہوئی ٹڈی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملا،اس نے اسے اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام رہی،چنانچہ اس نے وہ ٹکڑا وہیں چھوڑا اور چلی گئی۔تھوڑی دیر کے بعد اس کے ساتھ کچھ اور چونٹیاں بھی آ گئیں تا کہ وہ سب مل کر اس ٹکڑے کو اُٹھائیں اور لے جائیں۔
ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس نے اس ٹکڑے کو زمین سے اُٹھا کر چھپا دیا، سب چونٹیوں نے اس ٹکڑے کو اِدھر اُدھر تلاش کرنا شروع کردیا، جب انہیں وہ ٹکرا نہ ملا تو باقی سب چونٹیاں چلی گئیں۔ اور اطلاع دینے والی چونٹی وہیں گھومتی رہی،اس آدمی نے وہ ٹکڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔اس نے ٹکڑے کو پھر اُٹھانے کی کوشش کی لیکن اس کی یہ کوشش بھی بے سود رہی،چنانچہ وہ پھر گئی اور ان چونٹیوں کو بلا کر لے آئی۔
اس آدمی نے کئی بار ایسا کیا، بالآخر ان چونٹیوں نے تنگ آ کر اس چونٹی کو گھیرے میں لے لیا اور اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ کر دیا۔
اس آدمی نے یہ واقعہ جب اپنے استاد کو سُنایا تو انہوں نے حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا:دوسری چونٹیوں نے اس چونٹی کو اس لیے قتل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں یہ بات ڈال دی ہے کہ جھوٹ بُری چیز ہے،اور جھوٹے کو سزا ملنی چاہئے۔اگرچہ اس ٹکڑے کے نہ ملنے میں اس کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا لیکن چونکہ وہ چونٹی ان کے نزدیک جھوٹی ثابت ہو چکی تھی اس لیے انہوں نے مل کر اُسے جان سے ہی مار دیا۔
جھوٹ اس قدر ناپسندیدہ چیز ہے کہ انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات بھی اس سے نفرت کرتی ہے۔
(مفتاح دار السعادۃ و منشورولایۃ العلم 243)
Tags:
اصلاحی کہانیاں