خلیفہ ہارون الرشید بڑے حاضر دماغ تھے۔ آپ نے اپنی حاضر دماغی اور دُور اندیشی سے دُنیا کو متاثر کیا۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: ’’کیا آپ بھی کبھی کسی کی بات پر لاجواب ہوئے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہو گیا۔
ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اور غم نہ کریں۔ اس نے کہا کہ میں اس بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گیا۔
دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا۔ میں نے اسے بلوا کر کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے دئیے معجزات تھے، اگر تُو موسیٰ ہے تو کوئی معجزہ دکھا۔ اس نے جواب دیا کہ موسیٰ نے تو اس وقت معجزہ دکھایا تھا جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، تُو بھی یہ دعویٰ کر تو میں معجزہ دکھاؤں۔
تیسری مرتبہ کچھ لوگ ایک گورنر کی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر میرے پاس آئے۔ میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک، شریف اور ایماندار ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تا کہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔‘‘
(خلیفہ ہارون الرشید، از راجہ طارق محمود نعمانی، ص 333)
_______________
Tags:
میری ڈائری کا ایک ورق