بیگم صاحبہ کا موڈ سخت خراب تھا اور میاں جی کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے... اگرچہ وجوہات سے قطعی طور پر لاعلم تھے،،،، لیکن یقین رکھتے تھے کہ آنے والے طوفان کی زد میں ان کی ناتواں جان ہی آئے گی... اپنے تئیں بیگم کو منانے کی بھرپور کوشش میں ناکامی کے بعد میاں جی نے مارکیٹ کا رخ کیا اور بیگم کیلئے ایک سوٹ، پرفیوم اور لپ سٹک خرید لائے... بچوں کیلئے چاکلیٹس اور بسکٹس لئے اور ساتھ ہی بیگم کی پسند کے دہی بڑے پیک کروا لئے....
گھر پہنچے تو جیسا ماحول چھوڑ گئے تھے ویسا ہی پایا... تبدیلی نہ مزاج میں آئی تھی اور نہ ماحول میں...
ڈرتے ڈرتے بیگم کے پاس بیٹھے اور تحائف پیش کئے.. بچے چونکہ غیر سیاسی ہوتے ہیں... لہذا وہ چاکلیٹس پر ہی خوش ہو گئے...
بیگم صاحبہ نے سوٹ دیکھ کر منہ بنایا اور بولیں "آپ کو پتا بھی ہے کہ آپکو شاپنگ کی شناس نہیں ہے... پھر بھی باز نہیں آتے... اب تو ایسے سوٹ سیل میں بھی کوئی نہیں لیتا"....
میاں جی کے اوسان خطا ہو گئے، بولے "بیگم، تم میری محبت دیکھو، سوٹ تو تبدیل بھی ہو سکتا ہے نا، اور یہ دیکھو پرفیوم اور لپ سٹک بھی لایا ہوں تمہارے لئے"...
بیگم صاحبہ کچھ دیر کیلئے چیزوں میں کھو گئیں... اور بولیں "چلیں آپ لے آئیں ہیں تو رکھ لیتی ہوں، ورنہ ایسی چیزیں تو اب کام والی ماسیاں بھی نہیں لیتیں"....
میاں جی کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے... بولے "بیگم یہ دیکھو دہی بڑے بھی لایا ہوں"... بیگم کے چہرے پر فوراً خوشی کے آثار دیکھ کر میاں جی جھوم اٹھے...
بیگم دہی بڑوں کا شاپر کچن میں لے کر چلی گئیں، تو میاں جی نے سکھ کا سانس لیا... دوسرا سانس لینے سے پہلے بیگم کی آواز آئی... "چیکو کے ابا کب عقل آئے گی آپ کو" ...
میاں جی دوڑے دوڑے کچن میں پہنچے اور خوشامدانہ لہجے میں گویا ہوئے "بیگم اب کیا کر دیا ہے معصوم بندے نے"...
بیگم نے گھورتے ہوئے کہا "آپکو پتا بھی ہے کہ میں میٹھی چٹنی علیحدہ سے کھاتی ہوں، آپ مکس کرا کے لے آئے ہیں... آپ سے کوئی کام سیدھا بھی ہوتا ہے"؟....
میاں جی نے کھسیانے انداز میں کہا "بیگم اس خبیث کو کہا بھی تھا کہ میٹھی چٹنی الگ سے پیک کر دے، بے عزتی کرا دی میری، منحوس نے"...
دہی بڑے کھاتے ہوئے میاں جی نے ہمت کر کے پوچھا "بیگم ویسے آپ ناراض کس بات پر تھیں"...
بیگم فوراً اداس ہو گئیں اور بولیں "چیکو کے ابا، آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، آپ کی زندگی تو سکون میں ہے نا.. میں مروں یا جیئوں، آپ کو اس سے کیا"...
میاں جی گھبرا کر بولے "ارے میری شہزادی کچھ بتاو بھی تو سہی، آخر کیا وجہ ہے تمہاری اداسی کی"... بیگم صاحبہ نے کہا "آپ دفتر سے آ کر اپنی امی کے پاس بیٹھ جاتے ہو، ٹی وی دیکھتے رہتے ہو یا موبائل میں گھسے رہتے ہو، ہمارے لئے تو آپ کے پاس ٹائم ہی نہیں ہوتا"...
میاں جی کو ایک طویل جنگ کے آثار دکھائی دینے لگے.... معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کی غرض سے بولے "بیگم، تمہارا موڈ تو اکثر خراب ہوتا ہے، میں اس لئے سائیڈ پر ہو جاتا ہو، پھر تم بچوں کو پڑھا رہی ہوتی ہو تو تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھتا.... ویسے بھی تم 9 بجے سو جاتی ہو، میں تو گھر پر ہی ہوتا ہوں"...
بیگم صاحبہ کا حوصلہ جواب دینے لگا، بولی "خاک گھر پر ہوتے ہیں آپ.. پتا نہیں کون سی کلموہیوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں موبائل میں... میری تو زندگی برباد ہو گئی،، آپکے بچوں کی ذمہ داری بھی مجھ پر، کچن بھی میں ہی دیکھوں، کپڑے بھی میں دھووں.. اور آپ "راجہ اندر" بن کر موبائل میں گھسے رہیں... پتا نہیں کس عذاب میں پھنس گئی ہوں میں"....
بیگم کا نان سٹاپ ایکشن سے بھرپور ڈائیلاگ سن کر میاں جی کے چودہ طبق روشن ہو گئے، گھبرا کر بولے "ٹھیک ہے بیگم، آج سے تم کو مجھ میں تبدیلی نظر آئے گی"...
بیگم بولیں "چیکو کے ابا رہنے دیں، دس سال سے سن رہی ہوں آپ کے ڈائیلاگ، رتی بھر نہیں بدلے آپ...
جتنے غیر ذمہ دار پہلے دن تھے آج بھی ویسے ہی ہیں".
میاں جی نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور بیگم کا ہاتھ تھام کر کہا "تم دیکھنا، تبدیلی نظر آئے گی"....
شام کو میاں جی روم میں آئے تو بیگم بچوں کو پڑھا رہی تھیں، میاں جی نے چہکتے ہوئے کہا "واہ جی واہ پڑھائی ہو رہی ہے"... بیگم صاحبہ بیزاری سے بولیں "چیکو کے ابا، کل بچوں کا ٹیسٹ ہے، آپ ہمیں ڈسٹرب نہ کریں پلیز"... میاں جی کمرے سے نکل کر امی کے پاس جا بیٹھے...
امی کے پاؤں دبانے لگے اور ساتھ ٹی وی دیکھتے رہے... کافی دیر بعد چیکو نے اپنے کمرے سے جھانک کر آواز دی "بابا، آ جائیں، مما بلا رہی ہیں"..
میاں جی فوراً کمرے میں پہنچے... بیگم نے چیکو کو حکم دیا کہ لائٹ بند کر کے سو جاو سب.. صبح ٹیسٹ ہے تم لوگوں کا...
میاں جی بولے... "بیگم، مجھے جو بلایا تھا، اب سونے لگے ہو سب"...
بیگم بولیں "آپ بھی چپ کر کے سو جائیں.. چھوڑ دیں جان اس موبائل کی"... چیکو نے لائیٹ بند کر دی،،، بیگم صاحبہ نے دونوں بچوں کو دائیں بائیں سلا لیا.. جبکہ میاں جی نیچے بچھے میٹرس پر سو گئے...
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، رات بارہ بجے سونے والے کو نو بجے خاک نیند آنی تھی...
ہلکی سی آواز میں منمنائے "بیگم اتنی جلدی مجھے کہاں نیند آئے گی بھلا"... بچے بھی بولے "ہاں بابا، باتیں کرتے ہیں"....
بیگم نے غصے سے کہا "اب کسی کی آواز آئی تو اسکی خیر نہیں"... دونوں بچے فوراً رضائیوں میں گھس گئے... میاں جی نے ہمت کر کے پوچھا "بیگم مجھے کہتی ہو وقت نہیں دیتا.... اب کمرے میں آ گیا ہوں تو کہتی ہو چپ کر کے سو جاو، یہ کیا بات ہوئی بھلا"...
بیگم نے درشتت لہجے میں کہا "چیکو کے ابا، میرا بحث کرنے کا موڈ نہیں ہے.. چپ کر کے سو جائیں، اب موبائل نہ دیکھوں آپکے ہاتھ میں"....
میاں جی نے جوابی چوٹ کی "یار یہ آخر بیویاں کون سے ادارے سے ٹریننگ حاصل کرتی ہیں، خدا کی پناہ.. سیدھی سادھی لڑکی شادی ہوتے ہی افلاطون کی خالہ بن جاتی ہے".
بیگم بولیں"چیکو کے ابا، میرا منہ نہ کھلواؤ اب، اچھی بھلی تھی جب اپنے ماں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر آئی تھی.. ساری ٹریننگ ادھر سے ہی ملی ہے"...
اس سے پہلے کہ میاں جی جوابی فائر کرتے،
چیکو بول پڑا "مما، بابا... آپ لوگوں نے لڑائی کرنی ہے تو باہر جا کر لڑیں... ہمیں سونے دیں صبح ٹیسٹ بھی ہے"...
چیکو کی بات ختم ہوتے ہی چٹاخ کی آواز سے چیکو کو تھپڑ پڑا اور کمرے میں سناٹا چھا گیا... میاں جی نے چپکے سے موبائل آف کر کے سائیڈ پر رکھا اور کمبل میں دبک گئے....
Tags:
ناول