COMPLETE STORY OF HAZRAT ADAM ALI SALAM IN URDU HINDI - HAZRAT ADAM ALI SALAM KA WAQIA - QASAS UL ANBIYA

COMPLETE STORY OF HAZRAT ADAM ALI SALAM IN URDU HINDI - HAZRAT ADAM ALI SALAM KA WAQIA - QASAS UL ANBIYA 

یہاں ایک اصولی بات سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ امم سابقہ یعنی گزشتہ قوموں کی تاریخ کے دوطرح کے مآخذ ہیں:ایک، قرآن وسنت۔دوسرے،یہود ونصاری یا دیگر ذرائع سے منقول تاریخ۔قرآن کریم اور صحیح احادیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان پر یقین تو ضروری ہے؛کیونکہ تواتر اور صحیح سند کی وجہ سے وہ معتبر قرار پاتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ بہت سی تفصیلات ، جن کا سراغ ہمیں یہود ونصاری کے محرف علوم یاتاریخ کی کتابوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔۔۔اور وہ قرآن وسنت کے صریح خلاف بھی نہیں۔۔۔ظاہر ہےلانصدق ولانکذب ، ان کی نہ ہم تصدیق کرسکتے ہیں، نہ ہی تردید!ہم نے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے واقعات کو مرتب کرتے ہوئے دونوں ہی قسم کے مآخذ سے مدد لی ہے، لیکن کوشش رہے گی کہ جو بات جس ماخذ سے لی جائے، اس کا حوالہ ضرور دیا جائے*

*پیدائش ِآدم علیہ السلام:*

ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔دنیا میں جنات کی حکومت تھی۔یہاں خون ریزی تھی۔دنگا فساد تھا۔نافرمانی اور کفروشرک کا غلغلہ تھا۔نیکی بہت کم تھی، بدی بہت زیادہ تھی۔خالقِ کائنات نے جنات سے دنیا کی حکومت لے کر ایک دوسری مخلوق کو دینا چاہی؛ تاکہ جنات کا غرور خاک میں ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اطلاع دی کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں جو اختیار وارادے کا مالک ہوگا اور میری زمین پر جس قسم کا تصرف کرنا چاہے گا کرسکے گا اور اپنی ضروریات کے لیے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکے گا گویا وہ میری قدرت اور میرے تصرف واختیار کا مظہر ہوگا۔فرشتوں نے جب یہ سنا تو حیرت میں رہ گئے اورا للہ کے حضور بطور سوال عرض کیا : اے خدا ئےبے نیاز ! کیا آپ ایسے کو پیدا کرناچاہتے ہیں جو زمین کو فساد اور خونریزی سے بھر دے گا ۔یعنی فرشتوں نے اس نئی مخلوق کو جنات پر قیاس کیا اور وہ یہ سمجھے کہ نئی مخلوق بھی جنات کی طرح بے حد سرکش اور نافرمان ہوگی۔ وہ بولے کہ ہم جماعتِ ملائکہ آپ کی تسبیح وتہلیل کے لیے کافی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: ” آدم ؑ کے پیدا کرنے میں جو جو حکمتیں ہیں تم ان سے واقف نہیں بلکہ ہم ہی خوب جانتے ہیں ۔”

سورۃ البقرہ میں اللہ نے اس بارے میں آیات نازل کی ہیں ۔

*یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسانوں میں بھی نافرمانی اور ظلم کا مادہ ہے لیکن یاد رہے کہ وہ جنات کے مقابلے میں کم ہے۔فی صد کا فرق ملحوظ رہنا چاہیے۔یوں سمجھنا چاہیے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فرشتوں اور جنات کے بیچ کی معتدل مخلوق ہے۔*

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان کا خمیر تیار ہونے سے قبل فرشتوں کو اطلاع دی :

اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ( سورۃ البقرہ)

” (اے ملائکہ) میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔”

آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا اورا یسی مٹی سے گوندھا گیا جو نت نئی تبدیلی قبول کر نے والی تھی۔ جب یہ مٹی پختہ ٹھیکری کی طرح آواز دینے اور کھنکھنانے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اس جسد خاکی میں روح پھونکی۔ ابھی روح ناک کے نتھنوں سے داخل ہوکر دماغ تک پہنچی ہی تھی کہ آدم علیہ السلام کو چھینک آئی ۔اسی وقت آدم ؑ کو اللہ پاک کی طرف سے الہام ہوا کہ اس چھینک کے جواب میں “الحمد للہ ” کہو ۔ آدم ؑ نے چھینک لیتے ہی “الحمد للہ ” کہا ۔ جس کے جواب میں عرش معلیٰ سے “یر حمک اللہ ” یعنی ” اللہ تجھ پر رحم کرے گا ” جواب آیا ۔ (حدیث)

پھررفتہ رفتہ روح آدم ؑ، حضرت آدم علیہ السلام کے تمام جسد خاکی میں سرایت کرگئی یوں وہ مٹی کا پتلا یک بیک گوشت پوست ، ہڈی ، پٹھے کا زندہ انسان بن گیا اورارادہ ، شعور ، حس ، عقل ا ور وجدانی جذبات وکیفیات کا حامل نظر آنے لگا ۔

تعلیم آدم علیہ السلام: 

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا

اور ( اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ) آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھادیے۔

پھر اللہ پاک نے فرمایا :

اَنبؤنِىْ بِاَسْمَاءِ ھٰٓؤُلَاءِ ( سورۃ البقرہ )

یعنی ” اے ملائکہ !ان چیزوں کے نام بتاؤ۔

فرشتوں کو بھی خبر تک نہ تھی کہ ان چیزوں کے کیاکیا نام ہیں؟ کائنات کی تمام اشیاء فرشتوں کے سامنے پیش ہیں اور ان کے نام ان معصوموں سے دریافت ہورہے ہیں یہ کیوں ؟

یہ صرف آدم علیہ السلام کا اعزاز بڑھانے کے لیے ۔

چنانچہ اس عظیم سوال پر سارے فرشتے عاجز ہوئے اور سب نےا نکساری سے عرض کیا !

اے پاک پروردگار! تیری ذات خوب واقف ہے کہ ہم ا ن چیزوں کے نام نہیں جانتے تو بس وہی علم ہے جو تو نے ہمیں عطا کر رکھا ہے یعنی ذکر خدااور تسبیح الٰہی اور فی الحقیقت تو ہی سب چیزوں کا جاننے والا ہے اور بڑا حکمت والا ہے ۔

*آدم علیہ السلام کے اس شرفِ علم کے متعلق مفسرین کی متعدد آرا ہیں:*

1۔ ایک یہ کہ کائنات کی وہ تمام اشیاء جو ماضی سے مستقبل تک وجود میں آنے والی تھیں ان سب کے نام اور ان کی حقیقت کا علم حضرت آدم ؑ کو دیا گیا ۔

2۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس وقت جس قدر اشیاء وعالم کا ئنات میں موجود تھیں ان سب کا علم عطا کیاگیا ۔

3۔ زمین میں رہائش اور یہاں حکومت کرنے کے لیے جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ سب علوم عطا کیے گئے۔طب، انجینئرنگ ، ہندسہ ، سب علوم دیے گئے۔

4۔انسانوں کے اندر غصہ، شہوت، بھوک، حسد، تکبر، الغرض بہت سی باطنی کیفیات واحساسات ہیں جنہیں انسان ہی سمجھ سکتے ہیں، فرشتوں کے اندر وہ فیلنگزیا جذبات نہیں ہیں، اس لیے وہ اس کے نام اور کیفیات بتا بھی نہیں سکتے۔

بہر حال حضرت آدم علیہ السلام کو صفتِ علم سے اس طرح نوازا گیا کہ فرشتوں کے لیے بھی ان کی برتری اور استحقاقِ خلافت کے اقرار کے علاوہ چارہ کار نہ رہا اور یہ ماننا پڑ اکہ اگر ہم زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ بنائے جاتے تو کائنات کے تمام بھیدوں سے ناآشنا رہتے۔

“اللہ نے کہا :آدم !تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتادیے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے۔” (البقرۃ: آیت 33)

فرشتوں کو سجدے کا حکم :

جب حضرت آدم علیہ السلام کی علمی برتری تمام جنات وملائکہ پر آشکارا اور ظاہر ہو گئی تو اب آدم علیہ السلام کا اعزاز اور بڑھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا :

اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ( سورۃا لاعراف 11)

آدم علیہ السلام کو سجدہ کروتوفوراً تمام فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی اور سجدہ میں گرپڑے۔سوائے شیطان کے وہ سجدے میں نہ جھکا ۔

اس سے متعلق قرآن میں متعدد بار آیات آئی ہیں ۔

سورہ اعراف میں ہے:

“اور ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو۔ چنانچہ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔”

سورۃ الحجر میں ہے:

” ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔اور جنات کو اس سے پہلے ہم نے لو کی آگ سے پیدا کیا تھا۔اور وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا کہ : میں گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔لہذا جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔چنانچہ سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔” (الحجر)

سورہ کہف میں ہے:

” اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ : آدم کے آگے سجدہ کرو۔ چنانچہ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ جنات میں سے تھا، چنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم میرے بجائے اسے اور اس کی ذریت کو اپنا رکھوالا بناتے ہو۔ حالانکہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں؟

 ڈارون کا نظریہ غلط ہے: 

ان آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان پہلے دن سے ہی انسان ہے۔یہ نظریہ کہ انسان پہلے بندر یا کچھ اور تھا، ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بن گیا، بے بنیاد نظریہ ہے۔ڈارون کے اس نظریے کو ملحدین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ، لیکن جدید تحقیقات اور آثار قدیمہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان پہلے سے ہی انسان رہا ہے۔ ارتقاء انسانی علم وشعور میں ہواہے، انسان کی ساخت اور قالب میں نہیں۔ 

ابلیس کا تعارف : 

اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے ہزاروں سال پہلے ایک مخلوق آگ سے پیدا کی جسے جنات کہتے ہیں، جنات کی قوم میں ایک بزرگ تھا جس کا نام عزازیل تھا ، کہاجاتا ہے کہ عزازیل ہی جنات کا جدامجد ہےجس طرح آدم علیہ السلام انسانوں کے جد امجد ہیں۔ عزازیل بہت عبادت گزار اور اللہ کا نہایت فرمانبردارجن تھا۔ وہ جنت میں نور کے منبر پر بیٹھ کر فرشتوں کو درس دیا کرتا تھا اور بڑے بڑے فرشتے اس کے شاگرد ہوا کرتے تھے۔

جب عزازیل کی دانائی اورعبادت زمین و آسمان میں اچھی طرح آشکار ا ہوگئی تو عزازیل کو یقین ہوگیا کہ میں حقیقت میں کوئی اعلیٰ اعزاز کے قابل ہو ں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں نہ کوئی مجھ سے زیادہ عالم ہے نہ کوئی مجھ سے زیادہ زاہد۔اوراگر ہیں بھی تو میں ان کا سردار ہوں نیز عزازیل کو خود پر غرور ہوچلاتھا۔

ابلیس کی نافرمانی : 

اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرو! تو تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ” الا ابلیس ” مگر عزازیل جس کا لقب آج سے ابلیس ہوتا ہےا س نے سجدہ نہیں کیا۔ لکھا ہے کہ جب فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا تو پورے سو برس تک تمام ملائکہ سجدے میں پڑے رہے پھر جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تودیکھا کہ عزازیل یعنی ابلیس حضرت آدم ؑ سے منہ موڑے اکڑا ہوا کھڑا ہے اوراس کا سارا منہ سیاہ ہورہاہے ۔ جوآج سے پہلے نہایت خوب صورت تھا وہ آج ایک خوفناک دیو کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ ابلیس کی یہ بری حالت دیکھ کر تمام ملائکہ خوف خداوندی سے پھر سجدے میں گرے جس میں انہوں نے اپنی اطاعت اور اپنی خیریت پر لاکھ لاکھ شکر ِ خداوندی ادا کیا یہاں جناب حضرت محمد ﷺ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ دو سجدے فرشتوں کے اتنے پسندآئے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نےا پنے تمام بندوں پر نماز میں دو سجدے فرض کئے کہ ایک فرمانبرادی کا اوردوسرا فرمانبرداری کےا دا کرنے کا شکریہ کا ۔(واللہ اعلم بالصواب)

جب تمام فرشتے سجدے سے اٹھے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا :

اےا بلیس ! آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اللہ تعالٰی اگرچہ عالم الغیب ہیں اور دلوں کے بھیدوں سے خوب واقف ہیں اور ماضی ، حال اورمستقبل سب اس کے لیے یکساں ہیں ، مگر اللہ نے دوسروں کو دکھانے کے لیے ابلیس کے امتحان وآزمائش کےلیے یہ سوال کیا۔اس سوال پرا بلیس نے جواب دیا :

اے اللہ ! میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو خاک سے ۔پھر میں آگ کا بنا ہوا خاک کے پتلے کو کیوں سجدہ کروں؟

کتب وتفاسیر وتواریخ میں مرقوم ہے کہ ابلیس نے صرف اس زعم میں یہ نافرمانی کی کہ آدم علیہ السلام کی اصلی اعلیٰ اور افضل نہیں ہے یعنی مٹی آدم علیہ السلام کی اصل ہے ا ور وہ آگ کی پیداوار!

مگر بد بخت شیطان اپنے غرور وتکبر میں یہ بھول گیا کہ وہ خود اورآدم علیہ السلام دونوں خدا کی مخلوق ہیں تو مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر وہ مخلوق خود بھی نہیں جان سکتی وہ اپنے غرور وتکبر میں یہ بھی بھول گیا بلکہ یہ سمجھنے سے قاصررہا کہ مرتبےکی بلندی اورپستی اس مادہ کی بنا پر نہیں ہے جس سے کسی مخلوق کا خمیرتیار کیاجائے ،بلکہ اس کی ان صفات پر ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر ودیعت کی ہیں ۔یوں بھی مٹی کے اندر عاجزی کی صفت ہے جو اللہ تعالی کو بہت پسند ہے،جبکہ آگ کے اندر بلندی اور بڑائی کی صفت ہے جو اللہ تعالی کو پسند نہیں۔

بہر حال شیطان کا جواب چونکہ غرور وتکبر پر مبنی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پرواضح کردیا کہ کبر ونخوت نے تجھ کو اس قدر اندھا کردیاہے کہ تو اپنے خالق کے حقوق واحترام سے بھی منکر ہوگیااس لیے مجھ کو ظالم قرار دیا اور یہ نہ سمجھا کہ تیری جہالت نے تجھ کو حقیقت کوسمجھنے سے قاصر کردیا ۔ پس تو اب اس سر کشی کی وجہ سے ابدی ہلاکت کا مستحق ہے اور یہی تیرے عمل کی قدرتی پاداش ہے ۔

سورۃ الحجر میں ہے :

قَالَ يٰٓاِابْلِيْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ ( 32 )

اللہ نے کہا : ابلیس ! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا؟

قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ( 33) 

اس نے کہا : میں ایسا گرا ہوا نہیں ہوں کہ ایک ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ ( 34)

اللہ نے کہا : اچھا تو یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو مردود ہوگیا ہے۔

چنانچہ ابلیس کالباسِ بزرگی وکرامت اتارلیاگیا اور اس کو لعنت وپھٹکار کا جامہ پہنادیا گیا اور ملعون کر کے مقام ِقرب سے نکال دیاگیا ۔ لکھا گیا ہے کہ ابلیس کا حسن وجمال ملائکہ سےبہت اچھا تھا۔وہ نہایت نورانی صورت تھا، مگر آج غرورونافرمانی کے سبب ایسی صورت ہوگئی کہ جو دیکھتا تھا وہ اس پر لعنت ملامت کرتاتھا۔

طلب ِمہلت اور دعوی:

جب ابلیس کو ملعون کرکے جنت سے نکالا جانے لگا تو ابلیس نے توبہ وندامت کے بجائے اللہ سے یہ استدعا کی اے اللہ ! اگرتو مجھے اپنی حضوری سے نکالتا اور جنت سے محروم کرتا ہی ہے تو مجھے یہ مہلت دی جائے کہ میں تا قیامت زندہ رہوں۔اس نے دو مطالبے کیے: ایک بہت بڑی زندگی اور اختیارات کا۔ دوسرا موت نہ آنے کا۔انظرنی الی یوم یبعثون کا مطلب یہی ہے کہ قیامت کا دوسرا صور جس سے سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے جس کے بعد کوئی مرے گا نہیں، اس وقت تک مہلت دیجیے۔اللہ تعالی نے اسے اختیارات دیے اور مہلت بھی دی،لیکن مہلت دوبارہ اٹھائے جانے تک نہیں دی بلکہ فرمایا: الی یوم الوقت المعلوم یعنی تجھے ایک مقررہ وقت تک مہلت ہے۔ بظاہر اس سے مرادقیامت کا پہلا صور پھونکے جانے تک ہے۔

یہ سن کر اس نے پھر ایک مرتبہ اپنی شیطانیت کا مظاہرہ کیااور کہنے لگا : جب تو نے مجھے راندہ درگاہ کرہی دیا تو میں بھی جس آدم کی بدولت یہ رسوائی نصیب ہوئی ہے اس کو اورکی اولاد کو رسوا کروں گا اور ہر طرح سے ان کوگمراہ کروں گاا ور ان کی اکثریت کو تیرا ناشکرا بنا کر چھوڑوں گا،مگر تیرے ” مخلص بندے” میرے تیرسے گھائل نہ ہوسکیں گے اور ہر طرح سے محفوظ رہیں گے ۔

اللہ تعالی کا جواب:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابلیس کو یہ جواب دیا گیا:

”ہماری فطرت کا قانونِ مکافات ِعمل اٹل قانون ہے۔ جو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا ۔ جو بنی آدم تیری پیروی کرے گا وہ تیرے ساتھ ہی جہنم کا سزاوار ہوگا ۔ جا۔۔۔اپنی ذلت ورسوائی اور شومئی قسمت کے ساتھ یہاں سے دور ہو اورا پنی اور اپنی پیرووں کی ابدی لعنت ( جہنم ) کا منتظر رہ !

جنت میں قیام اور زوجیت :

حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنتی لباس پہنایا اور جنت میں داخل فرمایا۔ یہ جنت کشمیر یا دنیا کی کوئی اور جگہ نہیں ، بلکہ اصلی جنت تھی جو اوپر آسمانوں میں ہے۔آپ جنت میں جہاں چاہتے گھومتے، جو چاہتے کرتے ،لیکن ساتھ میں خود کو اکیلا محسوس کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے بی بی حوا علیہا السلام کو آپ کی بائیں طرف کی پسلی سے پیدا کیا ۔جس وقت بی بی حوا پیدا ہورہی تھیں، فرشتوں سے پردہ کرایا گیا۔ بی بی حوادنیا کی نہایت خوب صورت خاتون تھیں۔ جب حضرت آدم علیہ السلام سو کر اٹھے تو پوچھا :تم کون ہو انہوں نے کہا : اللہ نےمجھے آپ کے لیے پیدا کیا کہ آپ مجھ سے سکون حاصل کرسکیں اورآپ کی تنہائی ختم ہوسکے ۔

وہ دونوں خوشی سے جنت میں رہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم جہاں جاناچاہو جاسکتے ہو، جو کھانا ہے کھاسکتے ہو، بس ایک درخت کا پھل کھانے کے لیے منع کیا کہ اگر کھاؤ گے تونقصان اٹھاؤگے ۔ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے نکال دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ۔

وہ درخت کون سا تھا؟ مشہور ہے کہ وہ گندم کا درخت تھا،ایک قول انگور کا ہے۔اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حوالے سے چھ اقوال ملتے ہیں اور سب سے بہترین بات یہ ہے کہ جس چیز کو ذکر کرنے کی اللہ نے ضرورت نہیں سمجھی ہمیں بھی اس کے پیچھے زیادہ نہیں پڑنا چاہیے!

ادھر ابلیس کوایک پل چین نہیں آرہا تھا ۔اس نے بی بی حوایعنی عورت ذات کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ابلیس نے بی بی حوا کو بہکانا شروع کردیا۔وسوسہ ڈالنے لگا کہ اس درخت کا پھل کھالو جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ کھالو گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہ پاؤ گے فرشتوں کی طرح، ورنہ تم مرجاؤگے۔ کہاجاتا ہے کہ شیطان سانپ کے ساتھ مل کر جنت میں گیا اور سانپ کی صورت میں ان سے بات کی۔اللہ کے نام کی قسمیں کھائیں اور قسمیں کھاکر یقین دلایا کہ اللہ نے اس درخت سے شروع شروع میں روکا تھا اس لیے کہ اس وقت تمہاری نئی نئی پیدائش ہوئی تھی، تمہارا جسم اسے برداشت نہیں کرسکتا تھا،اب ایک عرصہ ہوگیا ہے ، اب تم مضبوط ہوچکے ہو، اب اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بی بی حوا اس کی باتوں میں آگئیں، وہ سمجھ رہی تھیں کہ اللہ کے نام کی قسم کھاکر کوئی غلط بات نہیں کرسکتا، بی بی حوانے حضرت آدم علیہ السلام کو قائل کرلیا کہ اس درخت کو کھانا پہلے ہمارے لیے درست نہ تھا لیکن اب درست ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سمجھے کہ اللہ تعالی کی یہ نہی، نہی تشریعی نہیں بلکہ نہی شفقتا تھی۔ اللہ تعالی کے ارشاد کے کچھ اہم الفاظ آپ اس وقت بھول گئے، یہ بھی یاد نہ رہا کہ خود انسان فرشتوں سے افضل ہے، درخت کھاکر فرشتہ بننے کی کیا ضرورت !!! ان فطری کمزوریوں کی وجہ سے آپ سے یہ اجتہادی خطا ہوگئی۔ بہرحال! دونوں ابلیس کے بہکاوے میں آگئے اورایک دن انہوں نے وہ پھل کھالیا ۔ جیسے ہی انہوں نے پھل کھایا تو سب سے پہلے ان کے کپڑے اتر گئے ۔شیطان کو معلوم تھا کہ اس درخت کی تاثیر یہ ہے کہ جو اسے کھاتا ہے ، بےلباس ہوجاتا ہے۔گویا شیطان نے انسان پر جو پہلا وار کیاہے وہ یہی بے لباسی کا وار تھا۔خواتین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔الغرض !وہ دونوں شرم سے ادھر ادھر بھاگنے لگے ،انہیں احساس ہو گیاتھا کہ ہم سےا للہ کی نافرمانی ہوگئی ہے ،لیکن ظاہر ہے حضرت آدم علیہ السلام کی یہ اجتہادی خطا تھی۔نافرمانی کا تصور تک ان کے دل میں نہ تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نےا ن کو آواز دی اور کہا : ” کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیاتھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا۔کیا میں نے نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ؟” 

جنت سے نکلنا :

اب اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت سے اتر نے کا حکم دیا اور فیصلہ فرمایا: تم انسان اور شریر جنات زمین پر بھیجے جارہے ہو، تم زمین میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔قیامت تک تم ایک دوسرے کے خلاف رہوگے۔اس دوران جو میرے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شیطان کے راستے پر چلے گا وہ جہنم میں جائے گا۔تمہیں ایک وقت تک دنیا میں رہنا ہوگا، فائدےا ٹھانے ہوں گے۔ تم یہیں زندگی بسر کروگےا ور یہیں مروگے اوریہیں سے ہی دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ۔

دنیا میں آمد:

کہاجاتا ہے کہ حضرت آدم کا قد بہت بڑا تھا۔ شاید جنت کے ساٹھ گز برابر۔ جب آسمان سے نیچے اتارا جارہا تھا تو وہ درازی کی وجہ سے فضا میں لہرارہے تھے۔ اللہ تعالی نے دراز قد کو مختصر کردیا اور آپ دنیا کے ساٹھ گز برابر ہوگئے اور سیدھے اترنے لگے۔(درمنثور)یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم وحوا دونوں کو الگ الگ مقامات پر اتارا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام کو ” کوہ ہند ” میں اور حوا علیہا السلام کو ” جرا “میں ۔ دونوں بہت شرمندہ تھے۔انہوں نے اپنی غلطی پر توبہ کرنا چاہی لیکن الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے ۔ اللہ نے انہیں یہ کلمات سکھائے : رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْتَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ( سورۃ الاعراف)

  اے ہمارے پروردگار ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔

جب انہوں نے یہ کلمات کہے تو اللہ نے انہیں معاف کردیا اوروہ عرفات کے میدا ن میں ایک دوسرے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہیں سے دنیا میں انسانیت کے دور کا آغاز ہوا۔

حضرت حوا علیہا السلام نے بیس بار ولادت کی تکلیف اٹھائی ۔ ہر بارجڑواں بچے پیدا ہوتے تھے ایک لڑکا ایک لڑکی ۔ جو ایک ساتھ پیدا ہوتے تھے وہ سگے بہن بھائیوں کی طرح ہوتے۔ان کی شادی نہیں ہوسکتی تھی ۔جو الگ الگ پیدا ہوتے تھے ان کی شادی ہوسکتی تھی۔انسانی آبادی کے لیے اس وقت اللہ تعالی نے یہی حکم بطور شریعت نازل فرمایا تھا۔اس طرح بی بی حوا نے کل چالیس بچوں کو جنم دیا۔

حضرت آدم علیہ السلام نبی ہیں، لیکن تشریعی نبی نہیں ، بلکہ ان نبیوں میں سے ہیں جو دنیا کی شروعات میں “تعلیم ِانسان” کے لیے بھیجے گئے۔حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وہ سب سکھایا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا ۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ۔ کھیتی باڑ ی کرتے اور جانوروں کو پالتے ۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :

“اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ۔”

حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں میں سے دو بیٹے قابیل اورہابیل بھی ہوئے۔ قابیل کے ساتھ جوبیٹی پیدا ہوئی تھی وہ خوب صورت تھی ،جبکہ ہابیل کے ساتھ جو بیٹی پیدا ہوئی تھی وہ خوب صورت نہیں تھی۔ قابیل نےحضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنی جڑواں بہن سے شادی کرے گا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی شریعت کے مطابق منع کردیا کیونکہ اللہ نے ا س کی اجازت نہیں دی تھی ۔ قابیل اپنے برتاؤ میں بھی سخت تھا وہ کھیتی باڑی کرتا تھا۔آج بھی کھیتی باڑی کرنے والوں کے مزاج سخت ہوتے ہیں۔ جبکہ ہابیل بہت نرم مزاج تھے وہ بکریاں چراتےتھے ۔بکری عاجز جانور ہے۔اس کے ساتھ رہنے سے انسان کے اندر عاجزی پیدا ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔

قابیل اڑگیا۔حضرت آدم ؑ نے اشارہ خداوندی سےفیصلہ فرمایا کہ تم دونوں اپنی قربانی اللہ کے سامنے پیش کرو جس کی قربانی اللہ تعالیٰ قبول کریں گے وہ اپنے موقف میں صحیح ہوگا ۔ا س زمانے میں جب اللہ کے لیے قربانی کی جاتی تو آسمان سے ایک آگ آتی جس کی قربانی وہ آگ کھالیتی ا س کی قربانی قبول ہوجاتی ۔

ہابیل نیک اور مخلص انسان تھے۔انہوں نے اپنی گلے کے سب سے اچھےجانور کو قربانی کے لیے پیش کیا جبکہ قابیل نے سب سےگھٹیا پھل نذرانے میں دیے۔ آگ آئی اور ہابیل کی قربانی کو کھالیا۔ہابیل کی جیت ہوئی اور قابیل کو شکست۔فیصلہ ہوگیا کہ ہابیل متقی اور نیک انسان ہے اور وہ اپنے موقف میں درست ہے۔ قابیل کو حسد ہونے لگا۔بجائے نیکی اور تقوی کا راستہ اختیار کرنے کےوہ شیطان کے جال میں پھنستا چلاگیا۔ اسے ہابیل پربہت غصہ آنے لگا۔اس نے ٹھان لی کہ وہ ہابیل کو قتل کرکے رہے گا۔ ایک دن موقع پاکر اس نے ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں ختم کردوں گا۔ ہابیل نے کہا میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۔ میں مظلوم بننا پسندکروں گا۔ ظالم بننا نہیں۔ قابیل نے ہابیل کے سر پر بڑا سا پتھر مارا جوان کی #موت کا سبب بنا۔ یہ #دھرتی پر پہلا انسانی قتل بھی تھااور پہلی موت بھی۔قابیل نے قتل کا #جرم کرلیالیکن اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہابیل کی لاش کا کیا کرے؟ کیونکہ ابھی تک کسی کی موت نہیں ہوئی تھی۔ وہ اسی شش وپنج میں تھا کہ اللہ تعالی نے ایک کوے کے ذریعے اسے مردہ دفنانے کا طریقہ سمجھایا۔ایک کوا اپنے ساتھی کو زمین میں گڑھا کھود کر دفنارہا تھا۔قابیل بہت شرمندہ ہوا۔اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ میں تو کوے سے بھی گیا گزرا ہوں۔کوا تدفین کا طریقہ جانتا ہے ، میں نہیں۔قابیل نے گڑھا کھودااورہابیل کو دفنادیا۔ اس کے بعدقابیل جس سے شادی کرنا چاہتا تھا اسے لے کر حضرت آدم ؑ سے بہت دور نکل گیا۔حضرت آدم ؑکے ساتھ جتنے لوگ تھے ان میں سےت جو جو شیطان کے بہکاوے میں آتے گئے وہ قابیل سے ملتے گئے۔حضرت آدم علیہ السلام کو جب ہابیل کے قتل کے بارے میں پتا چلا تو آپ کو بہت صدمہ ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی اصل عمر ایک ہزار برس تھی۔اپنی عمر کے چالیس سال آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو دینے کا کہہ دیا تھا۔اس لیے آپ کا انتقال نوسو ساٹھ برس کی عمر میں ہونے والا تھا۔جب حضرت آدم ؑ نوسوساٹھ سال کے ہوگئے تو بچوں سے کہا مجھے جنت کے پھل کھانے کی خواہش ہورہی ہے سارے بچے ادھر ادھر پھیل گئے پھل ڈھونڈنے کے لیے ۔ راستے میں ان کو موت کے فرشتے ملے جو انسانی شکل میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ واپس جاؤ!حضرت آدم ؑکی موت کا وقت قریب ہے۔ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی روح قبض کی۔ غسل دیا۔ خوشبو لگائی اوردفنادیا۔ آپ کی موت کے بعد حضرت شیث علیہ السلام کے سر پر نبوت وخلافت کا تاج سجایا گیا۔حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے ایک سال بعدحضرت حواؑ کابھی انتقال ہوگیا ۔

طبری اور ابن الاثیر کی روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو کعبہ بنانے کا حکم دیا اور حضرت جبرئیل نے انھیں مناسک ادا کرنے کے طریقے بتائے۔ بقول یعقوبی جبل ابوقیس کے دامن میں مغارۃ الکنوز “خزانوں کے غار” میں آپ کی تدفین ہوئی۔

• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک سعودی عرب میں مسجد خیف کے صحن میں ہے۔

• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک سعودی عرب کی مسجد خیف کے اندر واقع ہے۔

• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک سری لنکا میں اترنے کے مقام پر واقع ہے۔

• بعض مورخین کے بقول آپ کی قبرمبارک عراق میں واقع ہے۔

ترتیب وپیشکش:

محمدانس عبدالرحیم


COMPLETE STORY OF HAZRAT ADAM ALI SALAM IN HINDI URDU

ADAM ALI SALAM
➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖
Bismillah Hir Rahmaanir Raheem

Jab kuch bhi nahi tha tab sirf aur sirf Allah tha.phir Allah ne pani ko banaya ...pani ke oper apna arsh banaya jahan Allah ki kursi hai...jahan Allah Ta'alah maujood hain.

Uske baad Allah be qalam (pen) ko banaya aur kaha likho...qalam ne poocha kya likhun...Allah Ta'alah ne kaha qayamat tak jo kuch bhi hone vala hai sab kuch likh do to Allah ke hukum se qalam ne har cheez likh di..phir Allah ne LOHE MEHFOOZ banaya jo Allah ka ak tarah ka office hai jahan har cheez qalam se likhi hui maujood hai. Qayamat tak kya hoga kitne log kab paida honge kya karenge...duniya ka ak ak haal har cheez likhi hui hai Allah ke ilm main hai...


Uske baad Allah ne 50 000 saal baad aasmaan aur zameen ko banaya .


Uske baad farishtoon ko banaya jinoon ko banaya.


Uske baad 6 dino main pori duniya banaye... ye 6 din hamare dinoon ki tarah nahi the ye Allah ke din the


1..Saturday ko mitti banaye


2...Sunday ko pahad


3..Monday ko trees


4...Tuesday ko takleef .. bimariyaan ...musibate.


5.....Wednesday ko noor yani light.


6...Thursday ko janveroon ko zameen main phailaya.


7...Friday. ...ko asir se maghrib ke beech Adam Ali Salam ko paida kiya .


BUKHARI.



Allah ne farishtoon ko noor se..jinno ko aag se aur insan ko mitti se paida kiya.


Adam Ali Salam ko banane se 2000 saal pehle Duniya main Allah ta'alah jinno ko bhej chuke the magar unhone vahan bahot fasad kiya .....ak dosre ka khoon bahaya to Allah Ta'alah ne Farishtoon ko bheja jinhone jinoon ko zameen se door kar diya to jinn islands par door sunsaan ilaqoon par chale gaye.jinno main hi ak Azazil bhi tha jo Allah Ta'alah ka bahot ibadat guzaar banda tha..to farishte use apne saath le aaye jo baad main apne takabbur aur nafarmani ki vajah se Iblees kahlaya yani sakht mayoos kyon ki vo hamesha hamesha ke liye Allah ki rahmat se mayoos hai.



Ab Allah ne insan ko banane ke bare main soocha ...to farishtoon ko kaha ki main zameen main Khalifa banane vala hoon khalifa yani vo jinki ak generation ke baad generation aayen.



Allah ne jinno aur insan ko sirf apni apni ibadat ke liye paida kiya tha.



Ki vo duniya main jakar Allah ka test deen ibadat kareen.



Farishte jinno ka haal dekh chuke the unhone Allah se kaha ki aap kyon banana chahte hain insan ko jab ki hum to maujood hai jo din raat aapki hamd aur tasbeeh karte hain ...ye insan bhi zameen main jakar fasad karenge ak dosre ka khoon bahayenge.

Allah Ta'alah ne javab diya jo main janta hoon vo tum nahi jante. Yani Allah Taa'la unhe kyon bana rahe hain ye Allah ko pata tha.



Allah Ta'alah ne zameen se mitti mangvaye to pori duniya se farishte thodi thodi mitti laye ...thodi kali thodi laal thodi brown...isliye insan ki shakal har tarah ki hain...



Sukhi mitti ko TURAAB kaha jata hai..use bhigoya gaya to vo TEEN ban gaye ...phir usme se lees uthna shuru ho gaya aesi mitti ko SALSAAL kaha jata hai...


Ab Allah Taa'la ne apne haathoon se Adam Ali Salam ka statue banaya aur 40 dino ke liye chodh diya kisi rivayat main 40 saal aata hai Allahu alam .....vo mitti sookhi to black ho gaye usme se badbu aane lagi aesi mitti ko MASNOON kaha jata hai......phir vo bajne vali mitti ki tarah ho gaye jisko thokne se avaaz aati hai aesi mitti ko FAKHKHAAR kaha jata hai.


Quran main jab jab insan ke creation ka zikr aata hai to Allah ta'alah kahte hain humne tumhe mitti se banaya to ye alag alag mitti ke naam aate hain ..ki aesi mitti se banaya ..dekho tum kya cheez the .



Jab Adam Ali Salam ko banaya to vo 60 feet tall the .jab unka statue banakar Allah Ta'alah ne chodh diya to iblees unke aas paas chakkar lagata unke thokar maarta aur soochta ki inhe zarur kisi khaas maqsad ke liye banaya ja raha hai. .

Kahta agar mujhe ispar mussallat kar diya gaya to yaqeenun main ise musibat main daal donga.aur agar isko mujhpar mussallat kar diya gaya to main iski nararmani karunga.


Farishtoon ne soocha ye jo bhi makhlooq Allah Ta'alah bana rahe hain ye ilm main hum se zyada nahi ho sakti na hi humse zyada izzat vali...


Allah Ta'alah to sabke diloon ka haal jante hain ...

Allah Ta'alah ne hukum diya ki jaise hi main Adam Alahsalam main Ruh phoonkoon tum sab sajda karna ye sajda e tazeem tha is sajde ka hukum Allah Taa'la ne isliye diya ki sab ko pata chal jaye ki jo ye naya creation hai iska status farishtoon jinno se oper hoga ..



Allah Ta'alah ne ruh phonkne se pehle hi Adam Alahsalam ko Duniya ka pora ilm de diya har cheez ke naam sikha diye jaise ye tree hai ye mountain hai. ..ye star hai ye bird hai ..unki properties aur uses bhi sikha diye complete ilm diya .



Jaise hi unmain ruh phoonki to sare farishtoon ne sajda kiya sivaye iblees ne usne Allah ki nafarmaani ki aur sajda nahi kiya.



Jab Ruh phoonki to Ruh sar main dakhil hui to adam Ali Salam ko cheenk aaye to farishtoon ne kaha ki aap kahiye Alhamdullillah yani tamam tareef aur shukar Allah hi ke liye hai..is par Allah ta'alah ne farmaya RAHMAKA RABBUK tujh par tera rab raham farmaye.ab ruh aankhoon main dakhil hui to adam Ali Salam jannat ke phal dekhne lage..... charoon taraf dekhne lage .jab ruh pet main gaye to unhe bhook mehsoos hui ...jab peroon main ruh gaye to unhone chalne ki koshish ki uspar Allah ta'alah ne Qur'an main farmaya insan jaldbaaz hai.



phir Allah Taa'la ne unki peeth par haath phera to qayamat tak jitne bhi insan paida hone vale hain sab ki ruheen nikal aayen Allah ne sab se kaha ki kya main tumhara rab nahi..sab ne kaha ki aap hamare rab hai sabne sirf ak Allah ki ibadat ka vada kiya ise vada e alast kaha jata hai. .abhi Aalam e arvah main sabki ruheen maujood hai jo qayamat tak paida honge..



Adam Ali Salam ko paida kar ke unse kaha ki jakar farishtoon ko salam karo unhone farishtoon se Assalamualaikum yani salamati ho aap sab par kaha iske badle main farishtoon ne kaha va alaikum assalam va rahmatullahi... yani aap par bhi salamati ho aur Allah ki rahmat ho ..is par Allah ta'alah ne Adam Ali Salam se kaha ye tumhari aulaad ko ak dosre ke liye tohfa aur hadiya hai.



Ab Allah ne farishtoon ke saamne duniya ki kuch cheeze pesh ki aur unke naam pooche farishte nahi jante the unhone kaha ae Allah hamain ilm nahi hamain to sirf utna hi pata hai jitna ilm aapne hamain diya.... phir unhi cheezoon ke naam Adam Ali Salam se pooche to unhone sab ke naam bata diye .



Is par Allah Ta'alah ne farmaya kya maine nahi kaha tha ki mujhe zameen aur aasmaan ki har cheez ka ilm hai..jo tum zahir karte ho aur jo chupate ho use bhi main jaanta hoon.



Allah Ta'alah ko pata tha ki farishte Adam Ali Salam ke bare main kya sooch rahe the.



Adam Ali Salam ko jannat ka libaas pehnaya gaya aur jannat main rahne ko kaha gaya...vo jannat main rahne lage.


Idher iblees....

Jab Allah ne sab ko Adam Ali Salam ko sajde ka hukum diya to iblees ne sajda nahi kiya ..


Iblees ak naik aur buzurg jinn tha usne kabhi Allah ki nafarmaani nahi ki thi bahot ibadat guzaar tha isiliye buland martaba pa kar farishtoon main shamil tha .isi baat ka use bahot gurur ho gaya tha khud ko badi cheez samjhne laga tha....aur isi gurur main andha ho kar usne Allah ke hukum ko bhi maanne se inkaar kar diya.



Allah Ta'alah ne usse poocha ae iblees tujhe kis cheez ne sajda karne se roka kahne laga main usse behtar hoon tune Adam ko mitti se paida kiya aur mujhe aag se.



Allah Ta'alah ne kaha utar ja yahan se tujhe haq nahi ki jannat main rah kar takabbur kare .



Iblees kahne laga Ae Allah mujhe qayamat tak ki mohlat de dijeye ki main zinda rahoon. Allah Ta'alah ne use mohlat de di.



Jab mohlat mil gaye to apni galti maanne ki bajaye Allah Ta'alah se kahne laga ki tune mujhe gumrah kiya yani agar Allah mujhe sajdah ka hukum nahi deta to kuch nahi hota .ulta Allah ko blame karne laga ..



Kahne laga main qasam khata hoon main Adam ki aulaad ko gumrah karunga main tere sirate mustaqeem par beth jaonga phir unke aage se peeche se right se left se aaonga unhe behkaonga aap inki aksariyat ko yani majority ko shukar guzaar nahi payenge.



Main insanoon ke gunahoon ko unke liye khoobsurat bana donga. ..sivaye tere mukhlis bandoon ke vo mere behkave main nahi aayenge.



Is par Allah Ta'alah ne usse kaha tu nikal ja yahan se Adam ki aulaad main se jo tera kaha manenge aur tere saath chalenge ..main tujhe aur unko sab ko jahannam se bhar donga ..

Jo gumrah honge teri pervi karenge yani tere qadmoon par chalenge unke vade ki jagah jahannam hogi....



Lekin mere mukhlis bandoon par tera zoor nahi chalega .....


Ab Allah ne use aur powers dete hue kaha....tu ja inko agar apni avaaz ke zariye behka sakta hai to behka le .....music...inpar apne savar pyade chadha la yani har tarah ki fouj le aa ghudsavar paidal ...armies le aa apna har dav istemaal kar le ..inke maaloon... wealth aur aulaad main shirkat kar le.(tere raste main ye paisa kharch kareen...apni aulaad tere raste par lagaye) Inke bure aamal inhe bana savar kar dikha galat khwashiyaat inke ander daal de .dobara zinda na hone ke vade de.. tere sare vade fareeb honge.itne powers dekar use nikal diye ....uske ander itne powers the ki whisper kar sakta tha..use Adam Alahsalam par bahot gussa aaya ki inki vajah se ye sab hua to main ab inko bhi jannat main nahi rahne donga unhe zaleel karunga ...kyonki abhi unki aulaad to thi nahi vohi the...



Udher Adam Alahsalam ko Allah Ta'alah ne behtareen jannat ka libaas pehnaya tha ...jahan chahte ghoomte jo chahte khate ...lekin vo khud ko akela mehsoos kar rahe the...ak din vo so rahe the to Allah Ta'alah ne unki left pasli yani rib se Huvva Ali Salam ko paida kiya jo ki bahot zyada khoobsurat thin ..jab so kar uthe to unhe dekha to poocha tum kon ho unhone kaha ki Allah ne mujhe aapke liye paida kiya hai taki aap mujhse sukoon hasil kar sake ...



Vo dono khushi se jannat main rah rahe the.. Allah Ta'alah ne kaha jahan jana hai jao jo khana hai khao .......bas ak darakht /tree ka phal khane ke liye mana kiya ki agar kha loge to zalimoon main se ho jaoge...........Iblees tum aur tumhari bivi ka dushman hai kahin aesa na ho ki vo tumhe jannat se nikalva de. ..aur tum musibat main padh jao..



Iblees ko cheen nahi tha usne unke diloon main vasvasa daalna shuru kar diya ....ki us pedh ke phal kha lo jiske liye Allah ne unhe mana kiya tha kaha ki tum kha loge to hamesha hamesha ke liye jannat main rah paoge farishtoon ki tarah...



Ak din dono uske vasvase main aa gaye aur vo phal tod kar kha liya..



Jaise hi unhone phal khaya to sabse pehle unke kapad utar gaye vo dono shram se idher udher bhagne lage jannat ke pedoon ke patte khud par chipkane lage. ...unhe ahsaas ho gaya tha ki humse Allah ki na- farmani hui hai..



Ab Allah Taa'la ne avaaz di ......kya maine tumhe mana nahi kiya tha kya nahi bataya tha ki shaitaan tumhara khula dushman hai..... ....



Adam Ali Salam bahot zyada sharminda hue ....



Ab Allah ne unhe jannat se utar jane ka hukum diya aur kaha tum ak dosre ke dushman hoge...insan aur shaitaan. ..tumhe ak vaqt tak duniya main rahna hoga aur fayede uthane honge. ..vahin zindagi basar karoge vahi maroge aur vahin se uthaye jaoge....jab tum ko meri hidayat pahunche to jo usko manega usko qayamat ke din na koi gham hoga na koi dar hoga jahannam ka .



Lekin jo nahi manega hidayat ko jhutlayega vo sab aag main jayenge aur usi main rahenge. ..



Kaha jata hai ki Adam Alahsalam ko hind main aur Huvva Alahsalam ko jeddah main utara Allahu alam Iski alag alag rivayat milti hai.. vo bahot sharminda the apni galti par tauba ki to Allah ne unhe kuch kalmaat sikhaye jisko unhone jab padha to Allah ne unhe mauf kiya .aur arafaat ke maidaan main vo mile ye rivayat bhi sure nahi Allahu Alam ......phir duniya shuru hui ...



Vo kalmaat the....



Rabbana zalamna anfusana ...............



Huvva Ali Salam ne 20 viladat main 40 banchcho ko paida kiya unhi se duniya aage badhi..har baar judva banchche paida hote the ak ladka ak ladki ...jo ak saath paida hote the unki shadi nahi ho sakti thi jo alag alag paida hote the unki shadi ho sakti thi...



Adam Ali Salam ne apni aulaad ko vo sab sikhaya jo Allah ne unhe sikhaya tha..

Sab Ak Allah ki ibadat karte the ...khaiti karte aur janvaroon ko palte. .


Isi par Allah ne Qur'an main kaha ..


AE LOGON APNE RAB SE DARO JISNE TUMKO AK HI JAAN SE PAIDA KIYA .....


Adam Ali Salam ke betoon main se do bete the kabeel aur Habeel ....


Kabeel ke saath jo beti paida hui thi vo bahot khoobsurat thi lekin habeel ke saath jo paida hui thi vo khoobsurat nahi thi ....kabeel ne Adam Alahsalam se kaha ki vo apni judva behan se shadi karega Adam Ali Salam ne mana kar diya kyonki Allah ne iski ijazat nahi di thi...kabeel apne nature main bhi bahot sakht tha ....vo khaiti karta tha udher Habeel bahot naram the vo bakriyaan sambhalte the...

Adam Ali Salam ne kaha tum dono apni qurbani Allah ke saamne pesh karo jiski qurbani Allah Ta'alah qubool kar lenge vo sahi hoga.us zamane main jab Allah ke liye Qurbaani pesh ki jati to ak aag aati jiski qurbani vo aag kha leti uski qurbani qubool ho jati thi..Habeel ne sabse achcha janver qurbani ke liye diya aur kabeel ne sabse raddi fasal ka hissa ... aag aaye aur habeel ki qurbani ko kha liya ...is par kabeel bahot gussa hua ak din moqa dekh kar usne Habeel se kaha ki main tumhe khtam kar donga ..is par habeel ne kaha main tum par haath nahi uthaionga ...is par kabeel ne habeel ke sar par bada sa paththar mara aur vo mar gaya ....ab kabeel ko samjh nahi aaya ki habeel ki laash ka kya kare kyon ki abhi tak koi mara nahi tha. ..Allah Ta'alah ne do kuvve crows ko bheja unhone bhi aese hi ladai ki aur ak ne dosre ko maar dala .phir pehle ne gaddha khoda aur use dafna diya isse kabeel ne bhi aesa hi kiya ...aur jisse shadi karna chahta tha use lekar Adam Alahsalam se bahot door nikal gaya aur bas gaya...Adam Ali Salam ke saath jitne log the jo jo shaitan ke behkave main aate gaye vo kabeel se milte gaye...


Adam Ali Salam ko jab habeel ke qatl ke bare main pata chala to bahot takleef hui Allah Ta'alah ne shees Ali Salam ko unke baad nabi banaya jo unke hi bete the Adam Ali Salam ne shees Ali Salam ko sara ilm shikhaya Allah ne 104 sahife( written laws shariya) utare usme se 50 shees Ali Salam ko diye....


Jab Adam Ali Salam 960 years ke ho gaye to banchcho se kaha mujhe jannat ke phal khane ki khwaish ho rahi hai sare bachche idher udher phel gaye....phal dhoondne ke liye raste main unko maut ke farishte mile jo insani shakal main the unhone kaha ki vapas jao unki maut ka vaqt qareeb hai .

Adam Ali Salam ne apne 40 saal Daud Ali Salam ko de diye the.varna unki umar 1000 thi.


Farishtoon ne ruh qabz ki gusal diya khushbu lagai aur dafnaya....


Unki maut ke ak saal baad hi Huvva Ali Salam ka bhi inteqaal ho gaya.
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
Reference. ...

(Qur'an. .

.surah Baqarah.Ayat .30-39

Surah Aaraaf ..ayat..11-25 27, 172,173,174.

Surah maida ayat 27-31

Surah hijr 31-32

Surah bani israel ayat 62

Surah Taha ..ayat. .115-127
Surah saad 71-85
Surah saffaat ayat 82 surah ahzaab ayat 7
Ambiya 37.
Bukhari ...muslim)
Previous Post Next Post