بہت ہی پیاری نظم بعنوان: "آخری خط :میں نہیں چاہتا!"
....
میں نہیں چاہتا !!!
کہ مری ذات سے، تیرے پاکیزہ جذبوں پہ تہمت لگے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مری چاہ سے، تیری قسمت میں چاہت کا رستہ رُکے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مرے ساتھ سے، تیرے گلزار رستوں پہ کانٹے اُگیں!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ محبت مری، تیرے جیون کی خوشیوں کی قاتل بنے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مرے نام سے ، تیرے نام اور نسبت پہ اُنگلی اُٹھے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مقدر مرا، تیری قسمت میں حسرت کا ماخذ بنے!
میں نہیں چاہتا !!!
کہ تری خواہشیں، میری غربت میں روتی بلکتی رہیں!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مری زندگی، تیری ہستی کی ذلت کا باعث بنے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ تری چاہتیں، میری ہستی کی چاہت میں برباد ہوں!
میں نہیں چاہتا !!!
کہ تری ذات پر، میری بے مول ہستی کا سایہ پڑے !
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مرے ہجر میں، تیری معصوم آنکھوں سے آنسو بہیں!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مرے نسب سے ،تجھ کو تیرے ہی اپنوں سے نفرت ملے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ تُو چاہے مجھے، مجھ پہ اپنی محبت کو ارزاں کرے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ تُو مجھ کو ملے، اِس ملن سے تجھے اور کچھ نہ ملے!
میں نہیں چاہتا!!!
کہ مری چاہ میں ، مجھ پیاسے سا تُو بھی پیاسا رہے!
میں نہیں چاہتا!!!...کچھ نہیں چاہتا!!!
اے محبت! میں کچھ بھی نہیں چاہتا !!!
ایک تیرے سِوا کچھ نہیں چاہتا!!!...کچھ نہیں مانگتا!!!
میں نہیں جانتا کہ مرا ساتھ کب تک ترے ساتھ ہے!!!
میرے ہاتھوں میں کب تک ترا ہاتھ ہے، میں نہیں جانتا!!!
بس دُعا ہے مری، تُو جہاں بھی رہے، جس جگہ بھی رہے...
ہر خوشی تیری قدموں میں جھکتی رہے، زندگی پُرسکوں ، مسکراتی رہے...
بس !!! میں اِس کے سوا، کچھ نہیں چاہتا!!! ... کچھ نہیں چاہتا!!!