جاہل خاوند کی سبق آموز کہانی - شوہر کی محبت - Jahil Khawand Ki Sabaq Amoz Kahani
ہمارے قریب کے دیہات کا ایک واقعہ ہے. ایک نوجوان جس کی تعلیم بھی نہیں تھی اور شکل بھی عام سی تھی. یعنی شکل بھی عام سی، عقل بھی عام سی اور تعلیم بھی نہیں تھی. اس کی ایک خوبصورت کزن تھی. اس نوجوان نے کہا: میں اپنی اسی کزن سے شادی کرنا چاہتا ہوں. چنانچہ ماں باپ نے بھی ادھر زور دیا. لڑکی والوں نے لڑکی سے پوچھا تو لڑکی نے تو شروع میں ہاں کردی. نکاح ہوگیا. رخصتی بھی ہوگئی. لیکن جب وہ آکر اس کے پاس رہی تو اب اسے پتہ چلا کہ یہ تو پکا جاہل ہے. وہ سوچ میں پڑگئی کہ نہ عقل نہ شکل ہے، زندگی کیسے گزرے گی؟ چنانچہ اس لڑکی نے دل ہی دل میں اس نوجوان کو ناپسند کرنا شروع کردیا. مگر خاموش رہی.
شادی کے تین چار دن بعد عام طور پڑ دلہنیں اپنے ماں باپ کے گھر جاتی ہیں. یہ لڑکی بھی گھر چلی گئی. اس کے دل میں یہ بات تھی کہ اب میں دوبارہ اس گھر میں کبھی نہ آؤں تو زیادہ اچھی بات ہوگی. مگر اسے ماں باپ کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں ہورہی تھی. کیونکہ ایک تو قریب کا رشتہ تھا اور دوسرا شروع میں ہاں بھی کرچکی تھی.
انھیں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانا تھا. راستے میں اس نے خاوند سے کہا: مجھے پیاس لگی ہے. قریب ہی ایک کنواں تھا. خاوند نے جاکر ایک طرف گٹھڑی رکھی اور کنویں سے ڈول کے زریعے پانی بھرنے لگا. بیوی کے دل میں شیطان نے ایسی بات ڈالی کہ اس نے پیچھے سے اپنے خاوند کو کنویں میں دھکا دے دیا. جب دھکا دیا تو خاوند کنویں میں جاگرا. اس نے دل میں سوچا کہ اب یہ مر کھپ جائے گا اور ہمیشہ کے لئے اس سے جان چھوٹ جائے گی.
اب وہ واپس ماں پاب کے گھر چلی گئی اس نے ان کے پاس جاکر عورتوں والا مکر کیا. عورتیں مکر میں تو مشہور ہوتیں ہیں. جسے اخوان یوسف نے مکر کیا تھا ویسے ہی اس نے بھی مکر کیا. وہ روتی ہوئی گھر پہنچی. ماں باپ نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ خاوند مجھے بٹھا کر کہیں چلا گیا. میں اتنی دیرتک اس کا انتظار کرتی رہی. میں اکیلی تھی، مجھے ڈر لگنے لگا، کوئی غیر مرد آجاتا تو میرا کیا ہوتا؟ مجھے جان کا خطرہ تھا اور عزت کا بھی خطرہ تھا، وہ تو بڑا بے پرواہ سا آدمی ہے. اس لئے میں واپس آگئی ہوں. یہ سن کر ماں باپ کو بھی بڑا غصہ آیا کہ اس نے ہماری بیٹی کو اس طرح لاوارث چھوڑ دیا اور خود کہیں چلا گیا. یہ ایسا بے وقوف انسان ہے.
اب ادھر کی بات سنیں، جب خاوند پانی میں گرا تو جان بچانے کے لئے اس نے ہاتھ پاؤں مارے تو اس کا ہاتھ اس رسے پر پڑ گیا جس کے ساتھ ڈول بندھے ہوتے تھے. اس نے اس رسے کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور ڈوبنے سے بچ گیا، کافی دیر کے بعد اس نے ہمت کی اور آہستہ آہستہ رسے پر چڑھتے باہر نکل آیا. باہر نکل کر اس نے سوچا کہ میں کیا کروں؟ اس نے دل ہی دل میں کہا کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ میری بیوی میرے ساتھ ایسا معاملہ کرے گی، کوئی بات نہیں، میں دوبارہ چلا جاتا ہوں.
چنانچہ اب وہ دوبارہ سسرال کے گھر آیا. اتنے میں کپڑے بھی خشک ہوگئے تھے. جیسے ہی وہ سسرال کے گھر میں داخل ہوا تو لڑکی کے والدین نے اس کو بہت جلی کٹی سنائیں. کہنے لگے: تو کیسا بے عقل انسان ہے کہ تو ہماری بیٹی کو اکیلے چھوڑ کر چلا گیا! تو بڑا بے پروا ہے، تجھے اس کا ذرا خیال نہیں. انہوں نے جو کچھ کہا، اس نے خاموشی سے سنا اور آخر میں صرف اتنا کہا کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے. بہرحال آپ اپنی بیٹی کو بھیج دیں، ہمیں گھر جانے میں دیر ہو رہی ہے. جب انہوں نے دیکھا کہ یہ بہت شرمندگی کا اظہار کر رہا ہے تو انہوں نے پھر بیٹی سے کہا، کوئی بات نہیں اب تم چلی جاؤ.
اب بیٹی تو چل پڑی لیکن اس کے دل میں ایک بات بار بار آنے لگی کہ اگرچہ یہ ان پڑھ تھا، اگرچہ یہ بے عقل تھا، شکل اچھی نہیں تھی. مگر اس نے میرے ماں باپ کے سامنے میرا عیب تو چھپایا ہے، اس کا دل بڑا ہے نا! اگر یہ میرے ماں باپ کے سامنے میری حرکت کھول دیتا تو میں تو ماں باپ کو چہرہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہتی. اس ایک بات پر اس لڑکی کے دل میں خاوند کی ایسی محبت پیدا ہوئی کہ اس نے اپنی بقیہ پوری زندگی اپنے خاوند کی محبت میں گزاری.