شطرنج کی کہانی - شطرنج کی تاریخ
پاکستان کے معروف کالم نگار و سینئر صحافی جاوید چوہدری نے ایکسپریس نیوز میں اپنے پروگرام کل تک میں دنیا میں کھیلے جانے والے دلچسپ کھیل شطرنج کی تاریخ اور اس سے جڑے چند حیرت انگیز رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ شطرنج کا کھیل برصغیر میں ایجاد ہوا۔ برصغیر میںساڑھے تین ہزار سال قبل گپتا خاندان کی حکومت قائم تھی اور اس دور میں ایک ’’سیسا‘‘ نامی شخص نے شطرنج ایجاد کی۔ سیسا شطرنج کا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسی خوشی کے عالم میں سیسا سے پوچھا کہ ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘سیسا نے چند لمحے سوچا اور بادشاہ سے کہا کہ ’’حضور چاول کے چند دانے‘‘بادشاہ نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘سیسا بولا’’آپ شطرنج کے 64خانے شطرنج سے بھر دیںلیکن میرے فارمولے کے مطابق‘‘بادشاہ نے پوچھا ’’یہ فارمولا کیا ہے‘‘سیسا بولا ’’آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیجئے،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے کے مقابلے میں دگنے چاول یعنی چاول کے دو دانے رکھ دیجئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے مقابلے میں پھر دگنے چاول یعنی چار دانے رکھ دیں اور اسی طرح آپ ہر خانے میں چاولوں کی مقدار کو ڈبل کرتے چلے جائیںیہاں تک کہ چونسٹھ خانے پورے ہو جائیں‘‘۔ بادشاہ نے سیسا کے اس بیوقوفانہ مطالبے پر قہقہہ لگایااور یہ شرط قبول کرلی ، اور پھر یہاں سے دنیا کی وہ گیم شروع ہوئی جس سے آج مائیکرو سوفٹ جیسی کمپنیوں نے جنم لیا۔یہ بظاہر تو آسان سے کام دکھائی دیتا ہے لیکن یہ دنیا کا مشکل ترین معمہ تھااور آج ساڑھے تین ہزار سال گزرنے کے بعد شطرنج کے 64خانوں کو چاولوں سے بھرنا ممکن نہیں۔بادشاہ نے پہلے دن شطرنج کے پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھا اور اسے اٹھا کر سیسا کو دے دیا، سیسا چلا گیا، دوسرے دن دوسرے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دئیے گئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی، چوتھے روز آٹھ چاول ہو گئے، پانچویں دن ان کی تعداد 16ہو گئی، چھٹے دن یہ 32ہو گئے، ساتویں دن یہ 64ہو گئے، آٹھویں دن یعنی شطرنج کے بورڈ کی پہلی رو کے آخری خانے میں 128چاول ہو گئے، نویں دن ان کی تعداد 256ہو گئی ، دسویں دن یہ 512ہو گئے، گیارہوں دن ان کی تعداد 1024ہو گئی، بارہویں دن یہ 2048ہو گئے،تیرہویں دن ان کی تعداد 4096، چودہویں دن یہ 8192ہو گئے، پندرہویں دن یہ 16384ہو گئے۔ سولہویں دن یہ 32768ہو گئے اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑاسا اندازہ ہونے لگا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ وہ خود اور اس کے سارے وزیر مشیر سارا دن بیـٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔شطرنج کی تیسری قطار کے آخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیسا کو یہ چاول اـٹھانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔قصہ مختصرجب شطرنج کی چوتھی رو یعنی 33واں خانہ شروع ہوا توپورے ملک سے چاول ختم ہو گئے، بادشاہ حیران رہ گیا۔ اس نے اسی وقت ریاضی دان بلوائےاور ان سے پوچھا کہ شطرنج کے 64خانوں کیلئے کتنے چاول درکار ہونگےاور ان کیلئے کتنے دن چاہئیں۔ بادشاہ کے وہ ریاضی دان کئی دنوں تک بیٹھے رہے لیکن وہ وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ یہ اندازہ ساڑھے تین ہزار سال بعد بل گیٹس نے لگایا تھا۔بل گیٹس کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک کے ساتھ انیس19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آئیں گے۔بل گیـٹس کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو ہمیں چاول پورے کرنے کیلئے 18ارب بوریاں درکار ہوں گی۔اور ان چاولوں کو گننے ، شطرنج پر رکھنے اور اٹھانے کیلئے ڈیڑھ ارب سال چاہئیں۔ آپ بھی یہ کلکولیشن کر کے دیکھ لیں ، آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔مگر یہ یاد رکھئیے کہ یہ حساب عام کلکولیٹر کے ذریعے نہیں لگایا جا سکے گا، یہ صرف کمپیوـٹر کے ذریعے ہی کلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔اس ایشو کو مینجمنٹ کی زبان میں چیس بورڈ رائس یاسیکنڈ ہاف آف دی چیس بورڈ کہا جاتا ہے۔شطرنج بنانے والے اور گپتا بادشاہ کو اس خوفناک مسئلے میں پھنسانے والے سیسا کو بادشاہ نے شطرنج کی چوتھی رو پر پہنچ کر گرفتار کروا دیا تھا کیونکہ بادشاہ کو شطرنج کے ہاف میں پہنچ کر چاول پورے کرنے کیلئے ساڑھے پانچ دن لگ گئے تھے۔وہ اگلے خانوں کی طرف بڑھا تو ملک سے چاول ختم ہو گئے، جس سے بادشاہ جھلا اٹھا اور انتہائی غصے میں شطرنج بنانے والے کا سر قلم کروا دیا اور یوں شطرنج کا موجد مارا گیا لیکن شطرنج کی سر دردی آج تک قائم ہے۔شطرنج بھارت سے ایران پہنچی، وہاں سے بغـداد، بغداد سے سپین اور پھر سپین سے یورپ چلی گئی اور آج پوری دنیا میں کھیلی جا رہی ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ شطرنج سیاست جیسی گیم ہے جس میں پیادے سے لیکر بادشاہ تک سارے کردار موجود ہوتے ہیں بس ایک کردار نہیں ہوتا اور وہ کردار ہے جج ۔ جی ہاں شطرنج میں جج نہیں ہوتا مگر سیاست میں ہوتا ہے۔
Tags:
Dilchasp O Ajeeb Haqaiq